جواب
جواب میں آسانی کے لیے مذکورہ بالا سوال کے تین اجزا کیے جاتے ہیں :
(۱) فوٹو گرافی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جائز ہے یا ناجائز؟
(۲) جماعت ِ اسلامی ہند کے قدیم اکابر فوٹو کھنچوانے سے احتراز کرتے تھے اور حتی الامکان اس سے بچتے تھے، لیکن موجودہ قیادت کو اس معاملے میں نہ صرف یہ کہ کوئی تکلّف نہیں رہا، بلکہ وہ پورے اہتمام سے اس کا انتظام کرتی ہے۔ قدیم اکابر کا رویہ درست تھا یا موجودہ قائدین کا؟
(۳) فوٹو گرافی اگر جائز بھی ہو تو کیا جماعت میں ہر سطح پر اس سے، جس حد تک اشتغال اور دل چسپی پائی جاتی ہے، اسے پسندیدہ قرار دیا جاسکتا ہے؟
سطور ذیل میں ہر جز کا الگ الگ جواب دیا جارہاہے:
(۱) بہت سی صحیح احادیث میں تصویر اور تصویر سازی کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
اِنَّ الْمَلاَ ئِکَۃَ لاَ تَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ صُوْرَۃٌ۔ (صحیح بخاری، حدیث :۳۲۲۴، صحیح مسلم، حدیث :۲۱۰۷)
’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں کوئی تصویر ہو۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللّٰہِ الْمُصَوِّرُوْنَ۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب عذاب المصوّرین یوم القیامۃ حدیث: ۵۹۵۰، صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان حدیث: ۲۱۰۹)
’’اللہ کے نزدیک سب سے سخت عذاب کے مستحق تصویر بنانے والے ہیں ۔‘‘
کیا موجودہ دور کی فوٹو گرافی بھی اسی ممانعت کے حکم میں داخل ہے؟ بہت سے علماء کا خیال ہے کہ نہیں ۔ ان کے نزدیک ممانعت کی جتنی حدیثیں ہیں ان کا تعلق ان تصویروں سے ہے، جو تراشی جاتی ہیں یا مجسم شکل میں ہوتی ہیں ۔ رہے فوٹو گرافس تو ان کی حیثیت سایہ کی ہے، جسے کیمرہ میں قید کرلیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق ان تصویروں سے نہیں ہے، جن کا بنانا حرام ہے۔ البتہ یہ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ تصویر کی حرمت و حلّت کا تعلق اس چیز سے ہے، جس کی تصویر بنائی جارہی ہے۔ چناں چہ ان کے نزدیک بھی عورتوں کی عریاں و نیم عریاں تصاویر اور جو تصاویر بت پرستی کی علامت یا دیگر مذاہب کی خاص پہچان ہوں ، ان کا بنانا جائز نہیں ہے۔ یہ عالم عرب کے علماء کا عام موقف ہے۔ برصغیر ہند و پاک کے علماء اس معاملے میں تحفّظ رکھتے ہیں ۔ وہ کیمرہ سے لی گئی تصویر کو بھی جائز نہیں قرار دیتے، لیکن عمل اب ان کا بھی علمائے عرب سے مختلف نہیں رہا ہے۔
(۲)تحریک ِ اسلامی ہند کے قدیم اکابر تصویر سازی اور فوٹو گرافی کے معاملے میں علمائے ہند کے مثل احتیاط اور احتراز کی پالیسی پر گام زن تھے۔ وہ فوٹو کھنچوانے کی خواہش رکھتے تھے، نہ کبھی کوشش کرتے تھے، بلکہ اگر کبھی میڈیا سے تعلق رکھنے والے فوٹو گرافر ان کا فوٹو کھینچنے کی کوشش کرتے تھے تو وہ کیمرہ کی زد سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ قائدین جماعت کی اس شدّت ِ احتیاط میں کمی آتی گئی۔ یہاں تک کہ اب خود ذمے دارانِ جماعت کی جانب سے مختلف دینی پروگراموں کی فوٹو گرافی کا اہتمام کیا جاتاہے۔ نقطۂ نظر کی اس تبدیلی میں حالات کے دباؤ، تصویر سازی اور فوٹو گرافی کی ٹکنالوجی کی روز افزوں ترقی، میڈیا کی غیرمعمولی اہمیت اور اچھے دینی پروگراموں کی افادیت کی توسیع کی خواہش کے رول سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، موجودہ دور کی فوٹو گرافی کی حرمت پر تمام علماء کا اتفاق نہیں ہے۔ جن علماء نے احادیث ِ تحریم کا تجزیہ کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ موجودہ دور کی فوٹو گرافی پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا، ان کے دلائل پر غور کرنا چاہیے۔ بلاشبہ تحریک اسلامی ہند کے قدیم اکابر کا رویہ غایت درجہ احتیاط پر مبنی تھا، لیکن موجودہ قائدین کے رویے کو بھی ناجائز نہیں قرار دیا جاسکتا۔
(۳) اگر بعض مخصوص شرائط کے ساتھ فوٹو گرافی کے جواز کی رائے پر عمل کیا جائے تو بھی اس رویے کو پسندیدہ نہیں قرار دیا جاسکتا، جس کی شکایت درج بالا سوال میں کی گئی ہے۔ فوٹو گرافی کو صرف اجتماعات اور مہموں کی ریکارڈنگ تک محدود رکھنا چاہیے۔ دعوت ِ دین کا کام بڑا مبارک اور قابل ِ قدر کام ہے۔ یہ انبیائی مشن ہے، لیکن اس راہ میں ہر لمحہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ شیطان اس راہ میں کام کرنے والوں کے دلوں میں خود نمائی اور نمود و نمائش کی خواہشات نہ ابھاردے۔ اس خواہش کا دل کے کسی گوشے میں پیدا ہوجانا کارِ دعوت کے لے سمِّ قاتل ہے۔ اس لیے داعیانِ دین کو ہمہ وقت چوکنا رہنا چاہیے۔
فوٹو گرافی میں بہت زیادہ اشتغال اور اس کے بے تحاشا استعمال میں خاصے مصارف بھی آتے ہیں ، جن کی ادائی عموماً جماعت کے بیت المال سے کی جاتی ہے۔ اجتماعی اموال کی حفاظت اور صحیح، جائز اور موزوں مصارف میں ان کا خرچ ان لوگوں کی ذمے داری ہے، جن کے زیر ِ قبضہ وہ اموال ہوں ۔ اس معاملے میں بے احتیاطی، فضول خرچی اور غلط مصرف ’غلول‘ (مالِ غنیمت میں چوری) کے دائرہ میں آجاتاہے، جس پر قرآن وحدیث میں جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔