رخصتی سے قبل بیوہ ہوجانے والی عورت کی عدّت؟

ایک لڑکی کا نکاح ہوا۔ نکاح کے بعد اسے سسرال لے جایاجارہاتھا کہ راستے میں کسی انجان شخص کی فائرنگ کی زد میں آکر اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ کیا اس لڑکی کو عدّت گزارنی ہوگی؟

جواب

عدّت کی کئی صورتیں ہیں، جن میں سے ایک’ عدّتِ وفات ‘ ہے، یعنی کسی شخص کی وفات ہوجائے تواس کی بیوہ کوعدّت گزارنی ہوگی۔قرآن مجید میں اس کی مدت چارماہ دس دن بیان کی گئی ہے

وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا۝۰ۚ                                               (البقرۃ  ۲۳۴)

’’تم میں سے جن لوگوں کی وفات ہوجائے اور ان کے پیچھے ان کی بیویاں زندہ ہوں تووہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں۔‘‘

یہ عدّت ان عورتوں کے لیے بھی ہے جن کا نکاح توہوگیا ہو، لیکن ابھی شوہروں سے ان کی خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو۔

نکاح کے بعد، لیکن رخصتی سے قبل جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے اسے پورا مہر ملے گا، جسے شوہر کے ترکے میں سے اداکیاجائے گا۔ اسی طرح وہ شوہر کے ترکے میں سے بیوی کے حصے(چوتھا یا آٹھواں)کی بھی مستحق ہوگی۔ قرآن مجید میں ہے

وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ۝۰ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ            (النساء ۱۲)

’’اور وہ تمہارے ترکے میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگرتم بے اولاد ہو۔اور اگر تم صاحبِ اولاد ہوتو ان کا حصہ آٹھواں ہوگا۔‘‘