جواب
اس سلسلے میں دو باتیں عرض کرنی ہیں ۔ اول یہ کہ معتبر اور ثابت شدہ روایات کے بارے میں تاویل و توجیہ کا ذہن بنانا چاہیے، اس کے بہ جائے اوّل وہلہ میں اس پر اشکال وارد نہیں کردینا چاہیے۔ دوم یہ کہ کسی واقعے پر غور و خوض اپنے زمانے کے حالات کو پیش نظر رکھ کر نہیں ، بل کہ اس کے زمانۂ وقوع کی روشنی میں کرنا چاہیے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ سر زمین عرب کا موسم بہت گرم ہوتاہے۔ عہد نبوی میں مدینہ میں صرف چند کنویں تھے، جن سے پوری آبادی پانی حاصل کرتی تھی۔ گھر میں پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے صرف دو ایک مٹکے ہوتے تھے۔ اس لیے آج کل کی طرح ممکن نہ تھا کہ روزانہ صبح و شام غسل کیا جائے، پہننے کے کپڑے بھی بہت زیادہ نہیں ہوتے تھے کہ روزانہ انھیں تبدیل کیا جائے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی روایت میں زور اس بات پر ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ گھر کے چھوٹے چھوٹے کام بھی اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے، دوسروں پر انحصار نہیں کرتے تھے۔ بہ طور مثال انھوں نے دو کام بیان کردیے کہ آپؐ اپنی بکری کا دودھ خود دوہتے تھے اور اپنے کپڑوں سے جوں خود ہی نکال لیا کرتے تھے۔ اس کا مطلب نہ یہ ہے کہ آپ گھر میں صرف یہی دو کام انجام دیتے تھے، بقیہ دیگر خانگی کام دوسرے لوگوں کے حوالے تھے اور نہ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ آپ ہر وقت یہی دونوں کام یا ان میں سے کوئی ایک کام کرتے رہتے تھے۔ ظاہر ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کبھی غسل کرنے کے بعد آپؐ کے پاس دوسرے دھلے ہوئے کپڑے نہیں ہوئے تو آپؐ نے وہی کپڑے پہن لیے اور انھیں پہننے سے پہلے پلٹ کر دیکھ لیا کہ کہیں کوئی جوں تو نہیں ہے۔ آپؐ کی طبعی نظافت اور صفائی ستھرائی کے معمول کو (جس کا تذکرہ احادیث میں کثرت سے ملتا ہے) دیکھتے ہوئے ظاہر ہے کہ یہ صورت حال شاذ و نادر ہی پیش آتی ہوگی۔
حضرت عائشہؓ کی یہ روایت ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کا ایک قابل تقلید نمونہ پیش کرتی ہے۔ دین دار گھرانوں میں بھی اس کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ بیویاں گھروں میں خادماؤں کی طرح اپنے شوہروں کے چھوٹے بڑے تمام کام انجام دیتی ہیں اور اگر کبھی ان سے کچھ کوتاہی ہوجائے تو شوہران ِ نام دار کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ اختیار کرتے ہوئے انھیں گھریلو کاموں میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹانا چاہیے اور اپنے نجی کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔