دو عورتیں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کا نام رابعہ ہے، دوسری کا فاضلہ۔ رابعہ سے ایک لڑکا پیدا ہوا، جس کا نام ایوب ہے۔ فاضلہ سے ایک لڑکی ہوئی، جس کا نام قانتہ ہے۔ اگر ایوب بچپن میں فاضلہ کا دودھ پی لے، جب کہ ان دنوں فاضلہ اپنی لڑکی قانتہ کو دودھ پلا رہی تھی، اس صورت میں براہ کرام میرے درج ذیل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں :
۱۔ کیا ایوب کا نکاح صرف قانتہ سے حرام ہے یا اس کی دوسری بہنوں سے بھی؟
۲۔ کیا ایوب کا کوئی بھائی فاضلہ کی کسی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے؟
۳۔ کیا فاضلہ کے کسی لڑکے کا نکاح رابعہ کی کسی لڑکی سے جائز ہے؟
جواب
رضاعت (دودھ پینے )سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:
وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِی أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ ( النساء : ۲۳)
’’اور حرام ہیں تم پر تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور رضاعی بہنیں بھی۔ ‘‘
اور اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:
یَحرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا یَحرُمُ مِنَ النَّسَبِ ( بخاری: ۲۶۴۵، مسلم :۱۴۴۷)
’’رضاعت سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔ ‘‘
اگر کسی بچے یا بچی نے ایک عورت کا دودھ پیا ہے تو اس کا نکاح اس عورت کے تمام بچوں سے حرام ہوگا، اس لیے کہ وہ سب اس کے رضاعی بھائی اور بہن ہو گئے۔ اگر دودھ پینے والا لڑکا ہے تو اس عورت کی کسی لڑکی سے اس کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر وہ لڑکی ہے تو اس کا نکاح دودھ پلانے والی عورت کے کسی لڑکے سے نہیں ہو سکتا۔
لیکن رضاعت کا رشتہ دوسروں میں منتقل نہیں ہوتا۔ دودھ پلانے والی عورت سے رضاعت کا تعلق صرف اس لڑکے یا لڑکی سے قائم ہوا ہے جس نے اس کا دودھ پیا ہے، اس کے دوسرے بھائیوں یا بہنوں سے نہیں، چنانچہ دودھ پلانے والی عورت کی کسی لڑکی کا نکاح دودھ پینے والے لڑکے کے کسی بھائی سے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کے کسی لڑکے کا نکاح دودھ پینے والے لڑکے کی کسی بہن سے ہو سکتا ہے۔
اس تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :
ایوب کا نکاح نہ قانتہ سے ہو سکتا ہے نہ اس کی کسی بہن سے، اس لیے کہ وہ سب اس کی رضاعی بہنیں ہیں۔
ایوب کے کسی بھائی کا فاضلہ کی کسی لڑکی سے نکاح ہو سکتا ہے۔
فاضلہ کے کسی لڑکے کا نکاح رابعہ کی کسی لڑکی سے جائز ہے۔
June 2024