جواب
اگر کوئی بچہ یا بچی کسی عورت سے پانچ دفعہ دودھ پی لے تو رضاعت ثابت ہو جاتی ہے ، وہ عورت اس کی رضاعی ماں بن جاتی ہے اور اس کی کسی اولاد سے اس کا نکاح حرام ہوجاتا ہے۔ (عورت دودھ پلانا شروع کرے اور بچہ آسودہ ہو کر از خود پستان چھوڑ دے۔یہ ایک دفعہ ہوا۔) اس سے کم دودھ پیے تو اس کے بارے میں علما کا اختلاف ہے ۔
جمہور فقہا (احناف ،مالکیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد )اور بہت سے صحابہ و تابعین کے نزدیک بچہ دودھ زیادہ سے زیادہ پیے یا کم سے کم ،خواہ صرف ایک دفعہ پیے ، اس سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے ۔حرمت کی شرط یہ ہے کہ کسی عورت کا دودھ بچے کے پیٹ میں پہنچ جائے ،چاہے اس کی مقدار کتنی ہی کم ہو۔ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:’’تم پر حرام کی گئیں ....اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں ‘‘ (النساء ۲۳)اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :’’رضاعت سے وہ کچھ حرام ہوجاتا ہے جو نسب سے حرام ہوتا ہے ‘‘۔(بخاری۲۶۴۵،مسلم۱۴۴۷)
امام شافعی ؒ اور( ایک قول کے مطابق) امام احمد ؒ کے نزدیک رضاعت ثابت ہونے کے لیے بچے کا کم از کم پانچ دفعہ دودھ پینا ضروری ہے ۔اس سے کم پر رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ صحابۂ کرام میں حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن زبیر ؓ اورتابعین میں حضرت عطاؒء اور حضرت طائوس ؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ ان کی دلیل ام المومنین حضرت عائشہ ؓکی وہ روایت ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:’’ایک دو چسکیوں سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی ۔‘‘ان سے ایک اور حدیث مروی ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ قرآنی حکم کے مطابق پہلے دس چسکیں پر رضاعت ثابت ہوتی تھی،بعد میں تخفیف کرکے پانچ دفعہ پینے کی حد مقرر کردی گئی۔(مسلم ۱۵۵۲)
تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے الموسوعۃ الفقہیۃ ،کویت،۲۲؍۲۴۴۔۲۴۵،قاموس الفقہ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ،کتب خانہ نعیمیہ ،سہارن پور ،یوپی ،۲۰۰۶ء جلد سوم ،ص ۴۸۴۔۴۸۵