رضاعی بھائی سے نکاح جائز نہیں ہے ، لیکن ایک ہی گھر میں رہنے والوں میں اگر غلطی سے دودھ پلادیاگیا ہو اور علم میں نہ ہو، پھر دونوں کزن کی آپس میں نسبت طے ہوچکی ہو۔ اس کے بعد کوئی جاننے والی خاتون یہ راز فاش کردے، تب کیا اس بات کو بنیاد بناکر رشتہ توڑ دیاجائےگا ،یا باقی رکھاجائے گا؟ براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔
جواب
جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں، وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں حرام رشتوں کا بیان ہے، وہاں رضاعت کی وجہ سے حرام ہونے والے رشتوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔
وَاُمَّھٰتُكُمُ الّتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ
( النساء۲۳)
’’اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں۔‘‘
اس آیت میں نسب کی وجہ سے حرام ہونے والے سات رشتے داروں کاذکر ہے ماں، بیٹی، بہن ، پھوپھی، خالہ ، بھتیجی، بھانجی۔ ساتھ ہی رضاعت کی وجہ سے ان میں سے دو(ماں، بہن) کی حرمت کی صراحت ہے۔ باقی رشتوں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے
یُحْرَمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَایُحْرَمُ مِنَ النَّسَبِ
(بخاری ۲۶۴۵،مسلم۱۴۴۷)
’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیںجو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘
رضاعت کے ثبوت کے لیے کم ازکم کتنے افراد کی گواہی ضروری ہے؟اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ اس کے لیے صرف ایک عورت کی گواہی کا فی ہے۔ اس کی دلیل میں وہ حضرت عقبہ بن حارثؒ سے مروی حدیث پیش کرتے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کیا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک سیاہ فام عورت ہمارے پاس آئی اور کہنے لگی’’میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔‘‘ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پورا واقعہ سنایا اور یہ بھی کہا کہ وہ عورت جھوٹی ہے۔ آپؐ نے منہ پھیرلیا۔ میں دوسری طرف سے آپ کے سامنے گیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! وہ عورت جھوٹی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اب کیا ہوسکتا ہے ۔اس عورت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے ۔تم اپنی بیوی کو خود سے الگ کردو۔‘‘ (بخاری۵۱۰۴)
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس حدیث کی تشریح میں امام زہریؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عثمان بن عفانؓ نے اپنے عہد خلافت میں رضاعت کے معاملے میں ایک عورت کی گواہی پر کئی نکاح فسخ کردیے تھے۔
حضرت ابن عباسؓ اور زہریؒ،اسحاقؒ، حسن بصریؒ، اوزاعیؒ، طاؤس ؒاور ابن ابی ذئبؒ کی بھی یہی رائے ہے کہ رضاعت کے معاملے میں ایک عورت کی گواہی معتبر ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے ۔ علامہ شوکانیؒ کی بھی یہی رائے ہے۔(نیل الاوطار۶؍۳۵۹)
دیگر ائمہ کے نزدیک رضاعت میں بھی دوسرے معاملات کی طرح دومردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی معتبر ہوگی۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں’’اگر گواہی کے لیے کوئی مردنہ ہو، اس صورت میں چارعورتیںگواہی دیں تو ان کا اعتبارکیاجائے گا۔‘‘
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک صرف عورتوں کی گواہی معتبر نہیں۔اس کی دلیل میں حضرت عمربن الخطابؓ کایہ قول پیش کیاگیا ہے
لَایُقْبَلُ عَلَی الرِّضَاعِ أقَلَّ مِنْ شَاھِدَیْنِ
’’رضاعت کے معاملے میں دوگواہوں سے کم قابل قبول نہیں۔‘‘
حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ بہت سے صحابہ کی موجودگی میں کیا تھا، لیکن کسی نے اس پر نکیر نہیں کی ۔اس بناپر گویا اس پر صحابہ کا اجماع ہوگیا تھا۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ،کویت، ۲۲؍۲۵۳) حضرت عقبہ بن حارثؓ سے مروی حدیث کے بارے میں ان حضرات کا کہنا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ایک عورت کی گواہی پر بیوی سے علیٰحدہ ہونے کا مشورہ احتیاط کی بناپر دیاتھا۔ بہتر اورمحتاط بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی رشتہ طے ہواہو، ابھی نکاح نہ ہواہو، اسی دوران میں کوئی عورت کہے کہ اس نے لڑکے اور لڑکی دونوں کو دودھ پلایا ہے تو اس رشتے کو ختم کردیا جائے، البتہ اگر نکاح ہوگیا ہوتو ایک عورت کی گواہی کو کافی نہ سمجھاجائے، بلکہ اس کے لیے گواہی کے مقررہ نصاب(دومردیا ایک مرد اور دو عورتیں)کا اعتبارکیاجائے۔