رضاعی ماں  سے رسول اللہ ﷺ کی بے توجہی؟

ضرت حلیمہ سعدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں تھیں ۔ انہوں نے آپ کوبچپن میں دودھ پلایا تھا ۔ کتبِ سیرت میں نہیں ملتا کہ آپؐ نے کبھی ان سے ملاقات کے لیے سفر کیا ہو۔ نہ نبی بنائے جانے سے پہلے نہ نبی بنائے جانے کے بعد ۔ اسلام میں رشتوں کا پاس و لحاظ رکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے ۔ اس سلسلے میں خود آپ ؐ کے بہت سے ارشادات ہیں ۔ پھر خود آپ نے اس کاعملی مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟بہ راہ ِ کرم اس اشکال کو دور فرمادیں ۔
جواب

کتبِ سیرت میں حضرت حلیمہ سے متعلق زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں ۔ جوملتی ہیں ان کے بارے میں بھی سیرت نگاروں کے درمیان بعض اختلافات ہیں ۔ اس لیے ساری معلومات سامنے نہیں آپاتیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یقینی طورپر کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے جس طرح صلہ رحمی کی تاکید کی ہے اور خود بھی رشتوں کا پاس ولحاظ رکھا ہے ، اسی طرح آپ ؐ نے ضرور اپنے رضاعی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کیا ہوگا۔
حضرت حلیمہ بنت ابی ذؤیب کا تعلق قبیلۂ بنوسعد بن بکر سے تھا، جوقبیلۂ ہوازن کی ایک شاخ تھی۔ ہوازن اورثقیف کے قبائل طائف کےقریب آباد تھے ۔ طائف کے زرخیز علاقوں میں اہل قریش کی جائیدادیں اور باغات تھےاوران قبائل کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات بھی تھے۔ اس لیے ان کا ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ حلیمہ کے شوہر کا نام حارث بن عبداللہ تھا ۔ ان کا ایک لڑکا (عبداللہ ) اور دو لڑکیاں (انیسہ اورحذافہ) تھیں ۔ مؤخر الذکر کتبِ سیرت میں اپنے نام شیماء سے معروف ہے۔
حضرت حلیمہ کے بارے میں علامہ ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ حضورؓ کی بعثت سے قبل ان کا انتقال ہوچکا تھا۔البتہ بعثت سے قبل اور حضرت خدیجہؓ سے آپؐ کے نکاح کے بعد کے عرصہ میں ان کا ایک بار مکہ آنا ثابت ہے ۔ روایات میں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے تشریف لائیں تو آپؐ نے ان کا بڑا اعزاز واکرام کیا۔ انہوں نے اپنے علاقے کی خشک سالی اور قحط کے حالات اورجانوروں اورمویشیوں کے ہلاک ہونے کا ذکر کیا اوراپنی قوم کی بدحالی کا شکوہ کیاتو آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے مشورہ کرکے ان کوچالیس بکریاں اور سامان سے لدا ہوا ایک اونٹ عطا فرمایا ۔ یہ سہیلی کا بیان ہے ۔ حلبی کا اضافہ ہے کہ اس موقع پر حلیمہ اپنے شوہر اوربچوں کے ساتھ آئی تھیں او ر رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ان سب کو اپنی چادر پر بٹھایا تھا ۔ بلاذری نے لکھا ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان کے خاندان والوں سمیت خیر وعافیت کے ساتھ روانہ فرمایا ۔(ملاحظہ کیجئے پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی مائیں ، مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھجن ، ۱۲۰۱۱، ص ۱۳۵۔۱۳۶)
بعض کے خیال میں حلیمہ کا انتقال بعد میں ہوا، چنانچہ ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا دوسرا واقعہ غزوۂ حنین کے زمانے کا بتایا گیا ہے ۔ وہ تشریف لائیں تو آپؐ نے ان کا اعزاز وکرام کیا ۔ آپؐ نے ’میری ماں ، میری ماں ‘کہتے ہوئے ان کا محبت کے ساتھ اورآنسو بھرا استقبال کیا اور فرطِ محبت اوراحسان شناسی سے اپنی ردائے مبارک بچھادی اوراس پر ان کو بٹھایا۔ یہ ابن سعد، حافظ ابن حجر اور سہیلی وغیرہ کا بیان ہے ، لیکن حافظ دمیاطی اورحلبی نے لکھا ہے کہ غزوۂ حنین کے موقع پر حلیمہ نہیں ، بلکہ ان کی بیٹی شیماء آئی تھیں ۔ روایات میں ہے کہ آپؐ نے ان کا خوب اکرام کیا ، پھر ان کو اختیاردیا کہ وہ چاہیں تو آپؐ کے پاس تکریم کے ساتھ رہیں اورچاہیں تو اپنی قوم میں چلی جائیں ۔ انہوں نے عرض کیا : مجھے میرے لوگوں کے پاس بھیج دیجئے ۔ آپؐ نے ان کو عطایا دیے اورانہیں ان کی قوم میں بھیج دیا ۔ ( حوالہ سابق ، بہ حوالہ سہیلی ۲؍۱۹۷، ۷؍۱۸۲۔۱۸۳، بلاذری ، ۱؍۹۳)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی باپ حضرت حارث بن عبداللہ نے بعثتِ نبوی کے بعد مکہ آکر نہ صرف آپؐ سے ملاقات کی تھی، بلکہ آپ کے ہاتھ پر اسلام بھی قبول کیا تھا۔ (حوالہ سابق ، ص۱۳۵)
بعضـ روایات میں ایک اورواقعہ مذکورہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابطح نامی مقام پر تشریف فرماتھے کہ حلیمہ کی بہن آپؐ سے ملاقات کے لیے آئیں ۔ ان کے ساتھ ان کے شوہر کی بہن بھی تھیں ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پنیر اورخاص گھی کی ایک تھیلی پیش کی ۔ آپؐ نے ان سے حلیمہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے ان کی وفات کی خبردی۔ یہ سن کر آپؐ کی آنکھیں ڈبڈباآئیں ۔ انہوں نے اپنی حاجت بیان کی تو آپؐ نےان کو کچھ کپڑے سامان سے لدا ہوا ایک اونٹ اوردوسو درہم عطا فرمائے۔
(حوالہ سابق، ص۱۳۸، بہ حوالہ بلا ذری ، ۱؍۹۵)
سیرتِ نبوی کا یہ واقعہ تومشہور ہے کہ غزوۂ حنین (۸ھ) کے موقع پر بڑی تعداد میں قبیلۂ ہوازن سے مرد ، عورتیں اوربچے قیدی بنے۔ قبیلہ کا ایک وفد رسول اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اوراس نے رحم کی درخواست کرتے ہوئے آپ سے عرض کیا کہ ان قیدیوں میں آپؐ کی خالائیں بھی ہیں ۔ آپؐ کی انّائیں بھی ہیں ، جنہوں نے بچپن میں آپؐ کو گودوں میں کھلایا ہے توآپؐ نے فرمایا : جومیرا اوربنی عبدالمطلب کا حصہ ہے وہ میں نے چھوڑا ۔ انصار نے کہا: جوہمارا حصہ ہے وہ ہم نے اللہ اوررسول کے لیے چھوڑدیا ۔ اس طرح چھ ہزار قیدی رہا کردیے گئے اورجومال ان کوواپس دیا گیا اس کی قیمت پچاس کروڑ درہم تھی (حوالہ سابق، ص۱۳۹۔ ۱۴۰ ، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ، سیرت سرور عالم ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی ، ۲۰۱۳ء، ۲؍۷۹۔۸۰)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رضاعی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک میں کبھی کوئی کمی نہیں کی ۔ جب بھی موقع ملا آپ نے ان کا اعزاز وکرام کیا اورخوب داد ودہش سے کام لیا۔