رمضان میں امام مسجد کو بونس

ہمارے یہاں ایک مسجد ہے، جس کے امام کو ہر ماہ پانچ ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ تراویح پڑھانے کے لیے الگ سے ہنگامی چندہ کیا جاتا تھا اور اسے نذرانے کے طور پر امام صاحب کو دیا جاتا تھا۔ مگر بعض رسائل میں اس کے خلاف مستند اداروں کا فتویٰ شائع ہوا اور ہماری مسجد کے متولی صاحب نے بھی الگ سے فتویٰ منگوایا، جس میں اسے ناجائز کہا گیا تھا، تو اسے بند کردیا گیا۔ مگر پھر بونس کے نام سے دو ماہ کے برابر تنخواہ یعنی دس ہزار روپے عید کے موقع پر دیے جانے لگے۔ دلیل یہ دی گئی کہ سرکاری ملازمین اور بعض پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو بھی تہواروں مثلاً دیوالی وغیرہ کے موقع پر بونس دیا جاتا ہے۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب

امامت کی اجرت کو متقدمین فقہاء احناف نے ناجائز کہا تھا۔ اس لیے کہ متعدد احادیث میں تعلیم قرآن پر اجرت حاصل کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن فقہائے متاخرین نے اس کے جواز کی رائے دی ہے۔ اس لیے کہ دینی معاملات میں تساہل در آنے کی وجہ سے تعلیم قرآن کے ضیاع کا اندیشہ ہے۔ (حاشیہ ابن ِ عابدین، طبع دیوبند ۹/۶۵) در مختار میں ہے:
و یفتٰی الیوم بصحتھا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان۔
(رد مختار مع رد المحتار، ۹/۶۵)
’’آج کل قرآن و فقہ کی تعلیم اور امامت و اذان کی اجرت لینے کے جواز کا فتویٰ دیا جاتا ہے۔‘‘
کوئی شخص امامت کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے اوقات گھر جاتے ہیں ۔ گویا وہ جو کچھ اجرت لیتا ہے وہ نماز کی اجرت نہیں ، بل کہ وقت کی اجرت ہوتی ہے۔ امام کو اگر ماہِ رمضان میں اس کے مشاہرے کے علاوہ کچھ اضافی رقم دی جاتی ہے تو یہ امامت کی اجرت نہیں ، بل کہ اس کے ساتھ ’احسان‘ کا معاملہ ہے، جو پسندیدہ ہے۔ اگر امام نے خود کو مسجد کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے اور اس کے اوقات گھرے ہونے کی وجہ سے وہ کوئی دوسرا ذریعۂ معاش نہیں اختیار کرسکتا تو مسجد کی کمیٹی کے ذمہ داروں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے اور حسب ِ ضرورت اس کی امداد سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔