جواب
امامت کی اجرت کو متقدمین فقہاء احناف نے ناجائز کہا تھا۔ اس لیے کہ متعدد احادیث میں تعلیم قرآن پر اجرت حاصل کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن فقہائے متاخرین نے اس کے جواز کی رائے دی ہے۔ اس لیے کہ دینی معاملات میں تساہل در آنے کی وجہ سے تعلیم قرآن کے ضیاع کا اندیشہ ہے۔ (حاشیہ ابن ِ عابدین، طبع دیوبند ۹/۶۵) در مختار میں ہے:
و یفتٰی الیوم بصحتھا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان۔
(رد مختار مع رد المحتار، ۹/۶۵)
’’آج کل قرآن و فقہ کی تعلیم اور امامت و اذان کی اجرت لینے کے جواز کا فتویٰ دیا جاتا ہے۔‘‘
کوئی شخص امامت کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے اوقات گھر جاتے ہیں ۔ گویا وہ جو کچھ اجرت لیتا ہے وہ نماز کی اجرت نہیں ، بل کہ وقت کی اجرت ہوتی ہے۔ امام کو اگر ماہِ رمضان میں اس کے مشاہرے کے علاوہ کچھ اضافی رقم دی جاتی ہے تو یہ امامت کی اجرت نہیں ، بل کہ اس کے ساتھ ’احسان‘ کا معاملہ ہے، جو پسندیدہ ہے۔ اگر امام نے خود کو مسجد کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے اور اس کے اوقات گھرے ہونے کی وجہ سے وہ کوئی دوسرا ذریعۂ معاش نہیں اختیار کرسکتا تو مسجد کی کمیٹی کے ذمہ داروں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے اور حسب ِ ضرورت اس کی امداد سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔