رمی جمار کس واقعہ کی یادگارہے؟

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’خطبات ‘ میں لکھا ہے: ’’ دن نکلتا ہے تو (حاجی) منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے اور وہاں اس ستون پر کنکریوں سے چاند ماری کی جاتی ہے جہاں تک اصحاب فیل کی فوجیں کعبہ ڈھانے کے لیے پہنچ گئی تھیں ۔‘‘(ص۲۵۱) آگے مزید لکھا ہے: ’’دوسرے دن (حاجی) پتھر کے ان تین ستونوں پر باری باری کنکریوں سے ، پھر چاند ماری کرتا ہے جن کوجمرات کہتے ہیں اورجودر اصل اس ہاتھی والی فوج کی پسپائی اورتباہی کی یادگار میں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے سال عین حج کے مواقع پر اللہ کے گھر کو ڈھانے آئی تھی اور جسے اللہ کے حکم سے آسمانی چڑیوں نے کنکریاں مار مار کرتباہ کردیا تھا‘‘۔(ص۲۵۱،۲۵۲) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج میں رمی جمرات یعنی کنکریاں مارنا ہاتھی والی فوج کی پسپائی کی یادگار ہے ، جب کہ عام طور پر کنکریاں مارنے کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی سنت بتایا جاتا ہے۔
جواب

یہ بات کہ حج میں رمی جمار ابرہہ کی فو ج کی پسپائی اورہلاکت کی یادگار ہے، اصلاً پہلے مولانا حمید الدین فراہیؒ نے اپنی کتاب’ تفسیر سورۂ فیل‘ میں لکھی تھی، ان کی متابعت میں مولانا مودودیؒ نے بھی اسے قبول کرلیا ہے۔مولانا مودودیؒ نے اپنی رائے کے حق میں دلائل نہیں دیے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کا موقع نہ تھاکیوں کہ وہ عوام کے درمیان عام فہم انداز میں جمعہ کے خطبے دے رہے تھے، البتہ مولانا فراہیؒ نے اپنی رائے کومدلّل کرنے کی کوشش کی ہے، اگرچہ ان کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔
مولانا فراہیؒ کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ’’کلامِ جاہلیت میں دیگر مناسکِ حج کاذکر تو ملتا ہے ، لیکن رمی جمار کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نئی چیزہے، جو واقعۂ فیل کے بعد وجود میں آئی ہے۔‘‘ لیکن یہ دلیل صحیح نہیں ، اس لیے کہ جاہلی شعرا کے کلام میں رمی جمار کا ذکر موجود ہے اورمؤرخین نے بھی صراحت کی ہے کہ اہلِ عرب عہدِ جاہلیت میں رمی جمرات کرتے تھے (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے، راقم کا مقالہ بہ عنوان ’ مناسکِ حج کی تاریخ شائع شدہ ماہ نامہ ’حیات نو‘، اعظم گڑھ، مئی تا جولائی ۱۹۸۷ء)مولانا فراہیؒ نے اوربھی دلیلیں دی ہیں ، لیکن وہ بھی اشکالات سے خالی نہیں ہیں ۔
مولانا مودودیؒ کی کتاب ’خطبات‘ میں ، جہاں مولانا کی رائے مذکور ہے ، وہیں حاشیہ میں یہ وضاحت کی گئی ہے:
’’ عام طور پرمشہور یہ ہے کہ کنکریاں مارنے کا یہ فعل اس واقعہ کی یادگار میں کیا جاتا ہے جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کو پیش آیا تھا ، یعنی حضرت اسماعیلؑ کی قربانی دیتے وقت شیطان نے آکر آپ کو بہکایا تھا اورآپ نے اسے کنکریاں ماری تھیں ، یا جب حضرت اسماعیلؑ کے فدیے میں مینڈھا آپ کو قربانی کے لیے دیا گیا تو وہ نکل کر بھاگا تھا اور اس کوآپ نے کنکریاں ماری تھیں ۔ لیکن کسی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نہیں ہے کہ رمی جمار کی علّت یہ ہے ۔‘‘ (ص۲۵۲)
یہ بات صحیح ہے کہ کسی صحیح حدیث میں صراحت نہیں ہے کہ رمی جمار حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ کی یاد گار ہے ، لیکن متعد د روایات اورآثار صحابہ سے اس کا اشارہ ملتا ہے ۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے یہ قول مروی ہے:’’ اَلشَّیْطَانَ تَرْجُمُوْ نَ وَمِلَّۃَ اَبِیْکُمْ تَتَّبِعُوْنَ ’’تم شیطان کورجم کرتے ہو اوراپنے باپ ابراہیم کی ملت کی اتباع کرتے ہو‘‘۔ یہ روایت مستدرک حاکم(ا؍۶۳۸)السنن الکبریٰ للبیہقی (۵؍۱۵۳)اور شعب الایمان للبیہقی (۵؍۵۰۶) میں مروی ہے اور اس کی سند کو ’جید‘ (قابل قبول ) قرار دیا گیا ہے۔
بہرِ حال رمی جمار کی تاریخ کے سلسلے میں یہ دو رائیں ہیں ۔ دونوں قطعی نہیں ، بلکہ استنباطی ہیں ۔ ان میں سے کسی کوبھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں رمی جمارکیا ہے ، اسی لیے ہم بھی کرتے ہیں ۔