جواب
روزہ ایک عبادت ہے اور دوسری عبادتوں کی طرح وہ بھی بچوں پر فرض نہیں ہے، لیکن شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ بچوں میں ابتدا ہی سے نماز روزے کا شوق پیدا کرنا چاہیے اور انھیں ان کی ترغیب دینی چاہیے، تاکہ ان کی فرضیت کے بعد انہیں ان کی ادائی میں دشواری نہ ہو۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ بچے سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز پڑھنے کو کہا جائے اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھیں تو ان کی سرزنش کی جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
مُرُوا اَوْلَادَکُمْ بِالصَّلاَ ۃِ وَہُمْ اَبنَاءُ سَبعِ سِنینَ وَاضْرِبُوْہُمْ عَلیہَا وَہُمْ اَبنَائُ عَشْرٍ۔ (ابوداؤد۴۹۵:)
’’اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں (پھر بھی نماز نہ پڑھیں ) تو انھیں مارو ‘‘۔
روزے کے بارے میں ایسی صراحت تو نہیں ملتی، لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبویؐ میں بچوں کو روزہ رکھوایا جاتا تھا۔ حضرت رُبیع بنت معوذؓعاشوراء کے روزے کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی فضیلت بیان کی تو ہم یہ روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی رکھواتے تھے۔ ہم اپنے ساتھ بچوں کو مسجد لے جاتے تو ان کے لیے اون کے کھلونے بنالیتے تھے۔ جب کوئی بچہ بھوک کی وجہ سے رونے لگتا تو ہم اسے بہلانے کے لیے کھلونا دے دیتے تھے اور اسے مشغول رکھتے تھے، یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتاتھا۔
(بخاری: ۱۹۶۰، مسلم: ۱۱۳۶)
بچوں کے روزہ رکھنے پر خوشی کے اظہار اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی تقریب منعقد کرنے کا ثبوت حدیث سے نہیں ملتا، لیکن اگر فطری اور سادہ انداز میں ایسے موقع پر بعض قریبی رشتے داروں یا دوست احباب کو مدعو کرلیاجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں معلوم ہوتا۔ رہی یہ بات کہ اس کا جشن منایا جائے، اخبارات میں اس کا اشتہار دیا جائے، دعوت نامے چھپوائے اور تقسیم کیے جائیں ، تصویریں کھینچی جائیں ، بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کیا جائے اور روزہ کشائی کی خوب پبلسٹی کی جائے تو یہ سارے کام روزہ جیسی پاکیزہ عبادت کی روح کے منافی ہیں ۔ اس لیے ان سے اجتناب کرنا چاہیے ۔