جواب
(۱) روزہ کی حالت میں رسول اللہ ﷺ سے پچھنہ لگواناثابت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں :
اِنَّ النَّبِیَّ ﷺ اِحْتَجَمَ وَ ھُوَ صَائِمٌ ۔(۱)
’’نبی ﷺ نے پچھنہ لگوایا، جب کہ آپؐ روزہ سے تھے۔‘‘
پچھنہ لگوانے کو عربی میں ’حجامۃ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک طبی عمل ہے، جس کے ذریعے جسم کے بعض مخصوص مقامات سے خون نکلوایا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جسم سے خون نکلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس لیے دوران ِ روزہ جسم سے خون نکلوایا جاسکتا ہے۔ خواہ ٹیسٹ کروانے کے لیے یا کسی مریض کو دینے کے لیے۔
البتہ اگر خون نکلوانے سے بہت زیادہ ضعف پیدا ہوجانے کا امکان ہو اور اندیشہ ہو کہ روزہ خطرے میں پڑجائے گا تو اس سے بچنا چاہیے اور دن میں دوران ِ روزہ خون نکلوانے کے بجائے افطار کے بعد نکلوانا چاہیے۔ مشہور صحابی ِ رسول حضرت انس بن مالکؓ سے کسی نے دریافت کیا: کیا آپ لوگ عہد نبوی میں روزہ دار کے لیے پچھنہ لگوانا مکروہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے جواب دیا: نہیں ، الا ّ یہ کہ کم زوری کا اندیشہ ہو۔‘‘ (۱)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ پہلے دوران ِ روزہ دن میں پچھنہ لگوایا کرتے تھے، مگر پھر بعد میں ترک کردیا اور صرف رات میں پچھنہ لگوانے لگے۔ (۲)
(۲) آنکھوں اور ناک کے درمیان ایک باریک سی نالی ہوتی ہے جسے انبوب انفی دمعی (Nasolacrimal Duct)کہتے ہیں ۔ اگر آنکھوں میں آنسو کی زیادتی ہو تو زاید آنسو اسی نالی کے ذریعے ناک میں پہنچ جاتے ہیں ۔ آنکھ میں دوا ڈالنے سے وہ اسی نالی کے ذریعے ناک میں اور وہاں سے حلق میں پہنچ جاتی ہے اور اس کا اثر حلق میں ظاہر ہوتا ہے۔
روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے کے سلسلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، چاہے دوا کا اثر حلق میں محسوس ہو۔ شوافع کی بھی یہی رائے ہے۔ لیکن مالکیہ اور حنابلہ کی رائے ہے کہ اگر دوا کا اثر حلق میں ظاہر ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ (۳)
بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے اپنے دسویں اجلاس منعقدہ جدہ ۱۹۹۷ء میں ’علاج معالجہ کے میدان میں روزہ توڑنے والی چیزیں ‘ کے موضوع پر جو قرار دادیں منظور کی تھیں ان میں سے ایک قرار داد یہ بھی تھی:
’’آنکھ میں ٹپکانے والی دوا، کان میں ٹپکانے والی دوا، کان دھونے والی دوا، ناک میں ٹپکانے والی دوا، ناک میں پچکاری سے دی جانے والی دوا سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، اگر جو کچھ حلق میں پہنچے اسے نگلنے سے اجتناب کیا جائے۔‘‘
ساتھ ہی یہ بھی سفارش کی تھی کہ ’’مریض کو چاہیے کہ علاج کی مذکورہ بالا صورتوں میں سے جن کو افطار کے بعد تک موخر کرنے میں کوئی ضرر نہ پہنچے، انھیں افطار کے بعد تک موخر کردے۔‘‘ (۱)
(۳) اس معاملے میں آدمی جس جگہ ہو وہاں کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر ہندوستان کے لوگ رمضان کا تیسواں روزہ رکھ رہے ہیں تو اس دن اسے بھی روزہ رکھنا چاہیے، چاہے اس کے تیس دن کے روزے پورے ہوگئے ہوں اور یہ اس کا اکتیسواں روزہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُط (البقرۃ: ۱۸۵)
’’جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس میں روزہ رکھے۔‘‘
اس آیت کے الفاظ سے اشارہ مل رہا ہے کہ آدمی جس جگہ پہنچے وہاں اگر رمضان کا مہینہ چل رہا ہو تو اسے روزہ رکھنا چاہیے۔