جواب
کسی عورت سے زنا بالجبر کیا جائے ، اس میں اس کی مرضی شامل نہ ہوتو اسے پاک دامن سمجھا جائے گا اوراسی حیثیت میں اس سے معاملات کیے جائیں گے۔ ظاہر ہے ، اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ، بلکہ وہ تو مظلوم ہے ، اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے، اس لیے وہ ہمدردی اورتعاون کی مستحق ہے ۔ عموماً سماج میں ایسی عورت کوگری ہوئی نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس سے رشتہ کرنے سے احتراز کیا جاتا ہے ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ درست رویہ نہیں ہے۔
اگر زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورت شادی شدہ ہے تو اس سے اس کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ وہ اپنے شوہر سے معمول کے تعلقات رکھے گی ۔ حمل ہونے یانہ ہونے کا تیقن ہونے تک اس کے لیے شوہر سے دور رہنے کی ضرورت نہیں ۔ اگر استقرار حمل ہوجائے تو اولاد شوہر ہی کی سمجھی جائے گی۔ (بخاری ۲۰۵۳:)
اگر زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورت غیر شادی شدہ ہےاوراسے استقرار حمل ہوجائے تو کیا اس کا اسقاط جائز ہوگا ؟ اس سلسلے میں فقہا ء نے جائز حمل او رناجائز حمل کے درمیان کچھ فرق نہیں کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک سو بیس دن ( جوروح پھونکے جانے کی مدت ہے) کے بعد اسقاط عام حالات میں جائز نہیں ۔ اس سے قبل اسقاط کو احناف، شوافع اور بعض حنابلہ جائز قرار دیتے ہیں ۔مالکیہ کسی صورت میں اسقاط کی اجازت نہیں دیتے۔
زنا بالجبر سے ہونےوالی اولاد کی کفالت کی ذمہ داری ماں پر ہے ۔ بعض فقہا کہتےہیں کہ ایسا بچہ یتیم کے حکم میں ہے اور اس پر یتیم کے احکام نافذ ہوں گے۔ جوصور تیں یتیم کی کفالت کے لیے اختیار کی جاتی ہیں وہی اس کے معاملے میں بھی کی جائیں گی۔