جواب
وراثت کا تعلق کسی شخص کے مرنے کے بعد ہے، اس لیے قرآن مجید میں مستحقینِ وراثت کے جو حصے بیان کیے گئے ہیں ، کسی شخص کا اپنی زندگی میں اپنا مال ان حصوں کے مطابق اپنے قریبی رشتے داروں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ۔ آدمی اپنا مال، چاہے وہ اسے موروثی طورپر ملا ہویا اس نے خود کمایا ہو ، اس میں سے حسبِ مرضی کسی کو کچھ بھی دے سکتا ہے۔
اگرکوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا مال وجائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کررہاہو تویوں تو اسے قانونی طورپر اختیار ہے کہ کسی کوکم اورکسی کو زیادہ دے ۔ وہ اپنے جس لڑکے کوفارغ البال اور صاحب حیثیت پاتا ہو اسے کم دے اور جس لڑکے کومعاشی طور پر کم زور پاتا ہو اسے زیادہ دے ۔ لیکن بہتر ہے کہ وہ سب کوبرابر دے ،تاکہ ان سب کا حسن سلوک اس کے ساتھ برابر ہو۔ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تلقین کی ہے۔ اس بنا پر فقہا نے یہاں تک لکھا ہے کہ آدمی کو اپنی زندگی میں اپنا مال و جائیداد تقسیم کرنے کی صورت میں اپنےلڑکوں اورلڑکیوں میں بھی فرق نہیں کرنا چاہیے اورسب کوبرابر دینا چاہیے۔
مال اورجائیداد کی ایک شخص سے دوسرے کومنتقلی کی،وراثت کے علاوہ دو اور صورتیں ہیں : وصیت اور ہبہ ۔ وصیت یہ ہے کہ آدمی کہے کہ میرے مرنے کے بعد میری فلاں جائیداد فلا ں شخص کی ہوگی۔ وصیت میں دوباتیں ضرور ی ہیں : ایک یہ کہ کسی مستحق وراثت کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی۔ دوسرے ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت جائز نہیں ہے ۔ اس صورت میں آپ نے اپنے لیے جوکچھ الگ کررکھا ہے اس کے صرف ایک تہائی کی وصیت آپ کسی تنظیم ، جماعت ، ادارہ، مدرسہ، مسجد یا کسی شخص کےحق میں کرسکتے ہیں ، بقیہ دو تہائی آپ کے مرنے کے بعد آپ کے ورثہ ہی میں تقسیم ہوگا۔ دوسری صورت ہبہ کی ہے ۔ اس کا مطلب ہے آدمی کااپنی زندگی میں اپنی کسی چیز کا دوسرے کو بلا عوض مالک بنادینا ۔ اس طور پر آپ اپنے لیے خاص کیا گیا کل حصہ کسی کو ہبہ کرسکتے ہیں ۔
آپ نے جومال یا جائیداد اپنی معذور بیٹی کودے دی ہے اوراس کی معذوری کی وجہ سے اسے اپنی نگرانی (Guardianship)میں رکھا ہے ، اپنی وفات کے بعد کسی معتمد علیہ شخص کواس کا نگراں بنا سکتے ہیں ۔ اس طرح اس کی ملکیت آپ کی بیٹی ہی کے نام رہے گی اوراس کے تحفظ اورنگرانی کا کام وہ متعین شخص انجام دیتا رہے گا۔