ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ سب کی شادی ہوچکی ہے ۔ والدہ کا ایک برس پہلے انتقال ہوچکا ہے۔ ددھیالی رشتے دار والد صاحب کی خدمت کی غرض سے ان کی دوسری شادی کروادینا چاہتے ہیں۔ بھائی کا خیال ہے کہ والد کی پنشن تو دوسری بیوی کے نام ہوگی ہی، اس لیے وہ اپنی زندگی میں ہی ہم بہن بھائیوں میں وراثت تقسیم کردیں۔
کیا زندگی میں وراثت برابر تقسیم ہوگی، یا بھائی کے مقابلے میں بہن کو نصف ملے گا؟ گزارش ہے کہ رہ نمائی فرمائیں۔
جواب
دوسرے نکاح کو ہندوستانی سماج میں اورمسلمانوں کے درمیان بھی ناپسند کیاجاتا ہے۔ آدمی ادھیڑعمرکا ہوگیا ہواور بچے بڑے ہوگئے ہوں تو وہ کبھی علانیہ مخالفت کرتے ہیں، کبھی دبے الفاظ میں اور اگر خاموش رہتے ہیں تو اس عمل کو ناپسندیدہ سمجھتے ہیں اور والد سے ان کے تعلقات پہلے کی طرح خوش گوار یا نارمل نہیں رہتے ، حالاں کہ اسلامی تعلیمات کی روٗسے مرد اور عورت دونوں کے لیے ہر عمر میں جوڑے والا ہونا مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ (سورہ النور۳۲)
’’اورتم میں سے جو لوگ مجرد(بے نکاح کے)ہوں ان کے نکاح کرادو۔‘‘
آیت میں’ایامیٰ‘ کا لفظ آیا ہے،جس کا واحد ’ایم‘ ہے۔ اس سے مراد ہروہ مرد ہے جس کی بیوی نہ ہو، چاہے ابھی اس کا نکاح نہ ہواہو، یا نکاح کے بعد علیحٰدگی ہوگئی ہے، یا بیوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ اسی طرح اس کا اطلاق ہر اس عورت پر بھی ہوتا ہے جس کا شوہر نہ ہو، چاہے ابھی اس کا نکاح نہ ہواہو، یا اسے طلاق دے دی گئی ہو، یا وہ بیوہ ہوگئی ہو۔
کسی شخص کے مرنے کے بعد حکومت کی طرف سے جو پنشن ملتی ہے اس کا شمار وراثت میں نہیں ہوتا۔ اس کی حیثیت حکومت کی طرف سے امداد وتعاون کی ہوتی ہے اور بیوی یا جس کے نام وہ جاری ہوئی ہو، وہی اس کا مالک ہوتا ہے۔
وراثت کی تقسیم کسی شخص کے مرنے کے بعد ہوتی ہے ۔ اس کی موت کے وقت جو قریبی رشتہ دار زندہ ہوتے ہیں، وہ شریعت کی بتائی ہوئی تفصیلات کے مطابق اپنا حصہ پاتے ہیں۔ وراثت کسی شخص کی زندگی میں تقسیم نہیں ہوتی۔ وہ اپنی زندگی میں اپنا مال وجائیداد تقسیم کرنا چاہے تو اسے ہبہ(Gift)کہاجاتاہے۔
تقسیم وراثت کے معاملے میں حکم دیاگیا ہے کہ لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں نصف دیا جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
يُوْصِيْكُمُ اللہُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ۰ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ۰ۚ
( النساء۱۱)
’’تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتاہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔‘‘
لیکن ہبہ کرتے وقت تعلیم یہ ہے کہ ان کے درمیان برابر تقسیم کی جائے۔جتنا لڑکے کو دیا جائے اتنا ہی لڑکی کو بھی دیاجائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے
اِتَّقُواللہَ وَاعْدِلُوا فِی اَوْلَادِکُمْ ( بخاری۲۵۸۷، مسلم۱۶۲۳)
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے کام لو۔‘‘
امام بخاریؒ نے اس ضمن میں لکھا ہے’’کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو کوئی چیزدے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ چیز دوسروں کو نہ دے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انصاف سے کام لے اور جو چیز ایک کو دی ہے وہ دوسروں کو بھی دے۔‘‘ (باب الہبۃ للولد)
قرآن مجید میں رشتوں کی پاس داری کا حکم دیاگیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا (النساء۱)
’’اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانوکہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔‘‘
ماں کا انتقال ہوگیاہواوراولاد بڑی ہوتو باپ ان کی طرف سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق ہوتاہے۔ اس کے بجائے اگر اولاد کی نظر اس کے مال پرہواور وہ کسی طرح اسے حاصل کرلینے کی تدبیریں سوچیں تو اس رویّے کو پسندیدہ نہیں قرار دیاجاسکتا ہے۔
کسی شخص کی بیوی اور ایک لڑکا اور دولڑکیاں ہوں تو بیوی کا حصہ آٹھواں (12.5 %) ہے، باقی اولاد کے درمیان ہی تقسیم ہوگا۔ اس لیے اولاد کو باپ پر زندگی ہی میں انھیں ہبہ کرنے کے لیے دبائو بنانے کے بجائے تھوڑا صبر کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ توفیق عطافرمائے، آمین۔