جواب
کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی میراث کی تقسیم شریعت کے بنائے ہوئے ضوابط کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ اس کے ورثاء کا کام ہے کہ وہ عدل و انصاف کے مطابق میراث تقسیم کریں اور کسی مستحق کو محروم نہ کریں ۔
آدمی اپنی زندگی میں اپنے مال کا مالک ہے۔ وہ اس میں سے جتنا چاہے کسی کو دے سکتا ہے۔ اسے قانوناً اس کی اجازت حاصل ہے۔ وہ ان لوگوں کو بھی دے سکتا ہے، جو اس کے مرنے کے بعد اس کی میراث کے مستحق ہوں گے اور اسی تناسب سے دے سکتا ہے، جس تناسب سے ان کااستحقاق ہوگا۔ لیکن یہ میراث کی تقسیم نہیں کہلائے گی۔ بلکہ اس کی طرف ہبہ ہوگا۔
اگر کسی شخص کے بیٹے بیٹیاں ہوں تو میراث کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ ہر بیٹے کو ہر بیٹی کے مقابلے میں دو گنا ملے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائداد وغیرہ اپنے بیٹوں بیٹیوں میں تقسیم کر رہا ہو تو اسے سب کے درمیان برابر برابر تقسیم کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ایک صحابیؓ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں اپنے ایک بیٹے کو لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ گواہ رہیے، میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کیا تم نے اس طرح اپنے ہر بیٹے کو غلام دیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا: نہیں ۔ تو آپؐ نے فرمایا: میں ظلم و زیادتی کے معاملے میں گواہ نہیں بنوں گا۔ (۱)