زندگی میں ہبہ

,

 میرے شوہر کا انتقال دو برس قبل ہوا۔ ان کی والدہ باحیات ہیں۔ بچے ہیں دو بیٹیاں، جن میں ایک کا نکاح ہوچکا ہے اور ایک بیٹا ہے۔میرے شوہر نے اپنی زندگی میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ، صحت کی حالت میں اور گواہوں کی موجودگی میں اپنا تمام مال و اسباب ہمیں (یعنی اپنے بیوی بچوں کو) ہبہ کر دیا تھا۔ اس حوالے سے میرے دو سوالات ہیں

۱-       کیا شریعت کسی شخص کو اپنا تمام مال و اسباب ہبہ کرنے کی اجازت دیتی ہے؟

۲-       اگر شوہر نے کوئی جائیداد ہبہ کردی ہو تو کیا اس کے انتقال کے بعد اس میں وراثت جاری ہوگی؟

جواب آدمی اپنی زندگی میں اپنے مال و اسباب کا مالک ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اَمْوَالُکُمْ(تمھارا مال) کہا گیا ہے۔ اسے اپنے زیرِ ملکیت و زیر قبضہ مال میں آزادانہ تصرف کا پورا حق ہے۔شریعت میں مال و جائیداد کی منتقلی کی ایک صورت ہبہ کی بتائی گئی ہے۔ آدمی اپنی زندگی میں اپنا کل مال یا اس کا کچھ حصہ جس کو چاہے ہبہ کر سکتا ہے۔ ہبہ کے مکمل اور نافذ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس کو ہبہ کیا گیا ہو وہ اس پر قبضہ لے۔

اگر کسی پراپرٹی کے ہبہ کیے جانے کے مکمل ثبوت موجود ہوں تو اس کا مالک اس کو سمجھا جائے گا جس کو ہبہ کیا گیا ہو اور اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ والدہ کو یا کسی اور ہونے والے وارث کو محروم کرنے کی نیت سے تمام تر مال اپنے بیوی بچوں کے نام ہبہ کردینا گناہ کا کام ہے۔ آخرت میں اس کی جواب دہی ہوسکتی ہے، اس لیے ایسے کسی عمل سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(۲)

سوال میری عمر چھیاسٹھ (۶۶) برس ہے۔ اہلیہ اور دو لڑکیاں ہیں۔ کوئی لڑکا نہیں ہے۔ کیا میں اپنی ملکیت کی تمام چیزیں اپنی زندگی میں اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کو ہبہ کرسکتا ہوں؟ اگر یہ جائز ہے تو میں ان کے درمیان کس حساب سے تقسیم کروں؟

جواب

 اسلامی شریعت میں کوئی چیز کسی کی ملکیت سے دوسرے کی ملکیت میں منتقل ہونے کی تین صورتیں ہیں۔ اوّل وراثت۔ کسی شخص کی بیوی اور بیٹیاں ہوں اور اس کا انتقال ہوجائے تو بیوی کو آٹھواں حصہ( 12.5 %) اور بیٹیوں کو دو تہائی(66.7%) ملے گا۔ باقی مال دیگر رشتے داروں میں تقسیم ہوگا۔ دوموصیت۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ ورثہ کے حق میں نہیں کی جا سکتی اور دوسروں کے لیے صرف ایک تہائی (33.3%) تک کی جا سکتی ہے۔ سوم ہبہ۔ آدمی اپنے مال کا مالک ہے۔ وہ اپنی زندگی میں، جس کو چاہے، جتنا چاہے، دے سکتا ہے۔

آپ اگر چاہیں تو اپنی ضرورت کے لیے جتنا چاہیں بچالیں اور جتنا چاہیں بیوی کو دے دیں، باقی بیٹیوں کے درمیان برابر تقسیم کردیں۔