زوجین کے درمیان مزاجی اختلاف کا حل

زوجین میں ایک فریق بدعات وخرافات میں مبتلا ہے، مزاروں پر اس کی آمدورفت رہتی ہے، اس کی جانب سے مُردوں سے حاجت طلبی اور شرکیہ اعمال کا صدور ہوتا ہے، جب کہ دوسرا فریق موحّد ہے۔ اس طرح کے اعمال سے اسے ذہنی کوفت ہوتی ہے۔ اس بناپر ان کے درمیان ازدواجی تعلقات خوش گوار نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

جواب

نکاح کے ذریعے دواجنبی افراد ملتے ہیں اورپوری زندگی ایک ساتھ گزارنے کا عہد کرتے ہیں،اس لیے ان کے درمیان مزاجی ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ رشتہ طے کرتے وقت اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمارے سماج میں عموماً ’کفو‘ کے نام پر صرف ذات برادری دیکھی جاتی ہے اور مال داری کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کردیا جاتاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نکاح کے بعد معمولی معمولی باتوں پر ٹکرائوہوتا ہے ، تنازعات سرابھارتے ہیں اور ازدواجی رشتےمیں خوش گواری باقی نہیں رہتی۔ لیکن جب نکاح ہوجائے تو زوجین میں سے ہر ایک کو رشتہ نبھانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن مجید میں مردوں کو مخاطب کرکے کہا گیاہے۔

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا                    (النساء۱۹)

’’ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگروہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتاہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘

اللہ کے رسولﷺ نے عورتوں کے بارے میں فرمایا

المُنْتَزِعَاتُ وَالْمُخْتَلِعَاتُ ھُنَّ الْمُنَافِقَاتُ      (النسائی۳۴۶۱)

’’بغیرکسی عذر کے شوہروں سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنے والی عورتیں منافقوں جیسی ہیں۔‘‘

اسلام توحید کا علم بردار ہے۔ وہ شرک کا سخت مخالف ہے۔قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس کے ماسوا دوسرے گناہ جس قدر بھی ہوں،وہ جس کو چاہے گا، معاف کردے گا۔‘‘ (النساء۴۸)

اسی طرح اہل ِ ایمان کو بدعات وخرافات سے بھی دوٗررہنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے

مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ فِیْہ فَھُوَ رَدٌّ

جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کردی جو اس میں سے نہ ہو وہ قابل رد ہے۔                       (بخاری۲۶۹۷،مسلم ۱۷۱۸)

لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد شرکیہ اعمال اور بدعات وخرافات میں مبتلا ہے۔ مزاروں پر آمد ورفت اور مردوں سے حاجت طلبی اور استمداد کا شمار بھی ایسے ہی ناجائز کاموں میں ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں سے بالکلیہ تعلقات منقطع کرلینے کے بجائے ان کی حتی الامکان اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔

زوجین میں سے اگر کوئی شرکیہ اعمال اور بدعات وخرافات میں مبتلا ہے اور دوسرا موحّد ہے، جسے ان کاموں سے سخت تنفر ہے، تو مؤحّد کو اپنے شریکِ زندگی کی اصلاح اور تربیت کی فکر کرنی چاہیے۔ عام انسانوں کے مقابلے میں وہ اس کا زیادہ مستحق ہے۔ قرآن مجید میں کہاگیا ہے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا        (التحریم۶)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے۔‘‘

رشتے کو ختم کرنے کی بات آخر میں اور بہ درجۂ مجبوری سوچنی چاہیے۔ رشتے کو ختم کرنا بہت آسان ہے، لیکن اصلاح کا کام بڑا صبر آزماہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطافرمائے، آمین۔