ہمارے علاقے میں کچھ لوگوں نے مل کر بیت المال قائم کیا ہے۔ اس میں مختلف مدات میں رقوم آتی ہیں۔ کیا بیت المال میں داخل ہونے کے بعد ان کی حیثیت میں کوئی بدلاؤ آتا ہے یا نہیں؟
بیت المال میں دو، تین، بلکہ کبھی چار سال تک رقوم جمع رہتی ہیں، پوری طرح خرچ نہیں ہوپاتیں۔ اس طرح کل بچت کی رقم میں ہر سال اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ تمام بچی ہوئی رقم عموماً زکوٰة کی ہوتی ہے۔
کیا اس بچی ہوئی رقم میں سے کسی غریب کو روزگار کے لیے بہ طور قرض کچھ رقم دی جاسکتی ہے، اس طور سے کہ اس رقم کو اس سے قسطوں میں واپس لے لیا جائے اور اسے زکوٰة کی مد میں جمع کر لیا جائے؟
اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ جن غریب لوگوں کو روزگار کی ضرورت ہوتی ہے ان کو امداد کے نام پر رقم دینے سے ان کا خود کفیل ہوجانا مشکوک ہوتا ہے اور انھیں قرض کے نام پر کچھ رقم دی جائے تو انھیں یہ احساس رہے گا کہ قرض کی رقم واپس لوٹانی ہے، اس بنا پر وہ جی لگا کر روز گار کریں گے۔ پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صاحبِ نصاب ہوتے ہیں، مگر روزگار کے لیے ان کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا، وہ زکوٰة لے نہیں سکتے، یا لینا نہیں چاہتے تو کیا ایسے افراد کو زکوٰة کی رقم سے کچھ مدت کے لیے قرض دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
جواب
قرآن مجید میں زکوٰة کی آٹھ مدات بیان کی گئی ہیں۔(التوبة۶۰) جس آیت میں یہ بیان ہے اس کا آغاز لفظ’انّما‘سے ہوا ہے، یعنی زکوٰة صرف انہی مدات میں خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیت المال میں جو رقوم آتی ہیں ان کا ریکارڈ لازماً دو حصوں(catagories) میں کیا جانا چاہیے ایک زکوٰة، دوسرے غیر زکوٰة، جس میں دیگر تمام مدات آتی ہیں اور اسی اعتبار سے ان کی تقسیم بھی ہونی چاہیے۔ زکوٰة کی رقوم کو لازماً صرف انہی مدّات میں صرف کیا جانا چاہیے جن کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اموالِ زکوٰة کو جلد از جلد متعین مدات میں خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کوئی جماعت، تنظیم یا ادارہ، جس نے زکوٰة کے جمع و تقسیم کا نظام قائم کر رکھا ہو، اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ کئی کئی سال تک مالِ زکوٰة کو اپنے پاس روکے رکھے۔
زکوٰة کا ایک مصرف ’غارمین‘ (مقروض لوگ) ہیں۔ اس سے مراد وہ مقروض ہیں جو اگر اپنے مال سے اپنا قرض چکا دیں تو ان کے پاس نصاب سے کم مال بچے۔ یہ روزگار سے لگے ہوئے افراد ہوسکتے ہیں اور بے روزگار بھی۔ ان حضرات کی امداد زکوٰة سے کی جاسکتی ہے، لیکن ضروری ہے کہ انھیں مالِ زکوٰة کا مالک بنا دیا جائے، انھیں کوئی رقم قرض کے طور پر دے کر قسطوں میں اس کی واپسی کی شرط نہ لگائی جائے۔ جب زکوٰة دینے والوں نے ایسی کوئی شرط نہیں لگائی ہے تو زکوٰہ جمع اور صَرف کرنے والے ادارے کو بھی اس کا حق نہیں ہے۔
مالِ زکوٰة کے بہتر استعمال کے لیے تعلیم و تلقین کی مختلف تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، تاکہ جن لوگوں کو زکوٰة کی رقم دی جائے وہ اسے بے توجہی سے اُڑا نہ دیں، بلکہ صحیح مصرف میں لائیں اور اس کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔ اسی طرح جو لوگ غریب ہونے کے باوجود زکوٰة کی رقم لینا نہیں چاہتے، ان کے لیے دیگر ذرائع اختیار کرنا چاہیے۔ صاحبِ نصاب لوگوں کو روزگار میں سہارا دینے کے لیے بھی الگ سے فنڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔