میرے شوہر نے اپنے بڑے بھائی کو کپڑے کی دکان کے لیے چار لاکھ روپے دیے۔ اس پر اب ایک برس گزر گیا ہے۔ اس سے ان کو کوئی منافع نہیں ملتا اور نہ بھائی کے کاروبار میں ان کی شرکت ہے۔ ان کے بھائی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کچھ دنوں کے بعد وہ رقم واپس کردیں گے۔
براہ کرم وضاحت فرمائیں، اس رقم پر میرے شوہر کو زکوٰة ادا کرنی ہے، یا ان کے بھائی کو، جو اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ؟
جواب
فقہی ضابطہ یہ ہے کہ جو شخص رقم کا مالک ہے، سال گزرنے کے بعداس پر زکوٰة واجب ہوگی۔ جس نے اس رقم کو قرض پر لے کر اس سے فائدہ اٹھایا ہے، اس پر زکوٰة واجب نہیں۔ بہ ظاہر یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جس نے پورے سال رقم سے فائدہ اٹھایا اس پر کچھ واجب نہ ہو اور جس نے قرض دے کر احسان کیا اور رقم سے خود فائدہ اٹھانے کا اسے موقع نہیں ملا، اسے زکوٰة ادا کرنا پڑے۔ لیکن غور کیا جائے تو شریعت کا یہ حکم بالکل قرین ِ عقل ہے۔
احادیث میں وقت ِ ضرورت کسی کی مدد کرنے اور اسے قرض دینے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، بلکہ بعض احادیث میں اسے صدقہ سے افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔ کوئی شخص قرض دے کر کسی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے وہ بے پایاں اجر کا مستحق قرار پاتا ہے۔ لیکن چوں کہ اس رقم پر اس کی ملکیت برقرار ہے، اس لیے زکوٰة بھی اسی کو ادا کرنی ہوگی۔
مذکورہ بالا حکم اس صورت میں ہے جب کہ قرض دار خوش حال ہو اور وہ حسب طلب قرض کی رقم ادا کرنے کے لیے آمادہ اور تیار ہو، لیکن اگر قرض دار تنگ حال ہے اور رقم کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتا ہے، یا خوش حال ہے مگر قرض کی رقم ادا نہیں کررہا ہے تو اس صورت میں علما کی بڑی تعداد کی رائے یہ ہےکہ جس سال اسے قرض کی رقم واپس ملے وہ اس ایک سال کی زکوٰة ادا کردے۔