براہِ کرم زکوٰة کے سلسلے میں درج ذیل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں
۱- اسلام میں اجتماعی زکوٰة کے کیا خدّو خال ہیں؟
۲- زکوٰة کا اجتماعی نظام قائم کرنا کس کے ذمے ہے؟
۳- زکوٰة کہاں خرچ کی جائے؟
۴-زکوٰة کب واجب ہوتی ہے؟
۵-کیا زکوٰة کی ادائیگی تاخیر سے کی جاسکتی ہے؟
۶-کیا زکوٰة ادا کرتے وقت دینے والے کو بتانا ضروری ہے کہ یہ زکوٰة کی رقم ہے؟
۷- کیا کسی مقام پر اجتماعی زکوٰة کا نظام ہونے اورمستحقین کے موجود ہونے کے باوجود کسی دوسرے مقام پر زکوٰة روانہ کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب
اجتماعی نظامِ زکوٰة کے سلسلے میں آپ کے دریافت کردہ سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں
۱- زکوٰة کا اجتماعی نظام قائم کرنا پسندیدہ ہے۔ عبادات کی ادائیگی اجتماعی طور پر مشروع کی گئی ہے۔ جیسے نماز کی باجماعت مسجد میں ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے، روزہ تمام مسلمان مل کر ماہِ رمضان رکھتے ہیں، حج کے لیے تمام مسلمان مقررہ دنوں میں اکٹھا ہوتے ہیں، اسی طرح زکوٰة کا بھی اجتماعی نظام قائم کرنا مطلوب ہے۔
۲- زکوٰة کا اجتماعی نظام قائم کرنا اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے۔ جہاں اسلامی ریاست نہ ہو وہاں کے مسلمانوں کو اس کے سلسلے میں کوشش کرنی چاہیے۔
۳- زکوٰة کے آٹھ (۸) مصارف سورة التوبة۶۰ میں بیان کیے گئے ہیں۔ زکوٰة کو ان تمام میں یا ان میں سے کچھ میں خرچ کرنا چاہیے۔ ان مصارف کے علاوہ اور کسی مصرف میں اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔
۴- زکوٰة ہر برس واجب ہوتی ہے۔ جب مقررہ مقدار میں مال کسی شخص کے پاس ایک برس تک رہے تو اسے زکوٰة ادا کرنی ہے۔ زکوٰة نکالنے کے لیے صرف ماہِ رمضان کو خاص کردینا درست نہیں ہے۔
۵- زکوٰة واجب ہونے کے بعد حسبِ ضرورت کسی قدر تاخیر سے نکالی جاسکتی ہے اور اسے ایڈوانس بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔
۶- جس کو زکوٰة دی جائے اسے یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰة کا مال ہے۔
۷- زکوٰة جس جگہ سے وصول کی جائے، بہتر ہے کہ وہیں کے غربا و مستحقین پر خرچ کی جائے، لیکن یہ لازم نہیں ہے۔ حسبِ ضرورت دوسرے مقامات پر بھی بھیجی جا سکتی ہے۔