جواب
جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہو اسے چاہیے کہ وہ شکرانے کے طور پر دوسرے غریب اور ضرورت مند انسانوں پر خرچ کرے۔ قرآن میں ہے:
وَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo (الذاریات: ۱۹)
’’اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔‘‘
مال خرچ کرنے کو انفاق کہا جاتاہے۔ قرآن و حدیث میں انفاق کی ترغیب دی گئی ہے اور اللہ کی خوش نودی کے لیے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ اس کی انتہا یہ ہے کہ آدمی کے پاس اس کی اپنی بنیادی ضروریات سے زیادہ جتنا مال ہو، سب خرچ کردے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ٥ط قُلِ الْعَفْوَط (البقرہ: ۲۱۹)
’’پوچھتے ہیں : ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں ؟ کہو: جو کچھ تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو۔‘‘
انفاق کی ایک مخصوص صورت زکوٰۃ کی ہے۔ جس شخص کے پاس کم از کم مال کی ایک متعین مقدار [ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ان میں سے کسی ایک کی مالیت کے بقدر نقد رقم] ہو اور وہ سال بھر اس کے پاس محفوظ رہے تو اس میں سے ڈھائی فی صد نکالنا اور اس کی مخصوص مدات میں اسے خرچ کرنا اس پر فرض ہے۔ اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔
جس شخص پر جتنی رقم بہ طور زکوٰۃ عائد ہوتی ہے وہ اس سے زیادہ خرچ کرسکتا ہے۔ اس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر و ثواب کا مستحق ہوگا، لیکن ڈھائی فی صد سے اوپر کی رقم کو زکوٰۃ نہیں کہا جاسکتا، اسے صدقہ، خیرات، عطیہ، ہبہ، اعانت کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں اور ہر فرض کی رکعتیں بھی متعین کردی ہیں ۔ کوئی شخص ان اوقات میں مزید نمازیں پڑھ سکتا ہے، لیکن ان کی حیثیت نوافل کی ہوگی، وہ فرض رکعتوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرسکتا۔
زکوٰۃ اور صدقات کو الگ الگ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ زکوٰۃ صرف مخصوص مدات میں خرچ کی جاسکتی ہے، جن کی صراحت قرآن کریم (التوبۃ: ۶۰) میں کردی گئی ہے، جب کہ صدقات کی رقمیں ہرکار خیر میں صرف کی جاسکتی ہیں ۔ جو تنظیمیں یا ادارے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں وہ بھی زکوٰۃ اور صدقات کا الگ الگ حساب رکھتے ہیں ، اس لیے انھیں کوئی رقم حوالے کرتے وقت یہ صراحت مناسب بلکہ ضروری ہے کہ اس میں سے اتنی رقم زکوٰۃ کی ہے اور اتنی عطیہ ہے۔