زکوٰۃ کے چند مسائل

میں ایک فیکٹری کا مالک ہوں ۔ اس میں بہت سے ملازمین کام کرتے ہیں ۔ میں ہر سال رمضان میں اپنی پورے سال کی آمدنی کا حساب کرکے زکوٰۃ نکالتا ہوں ۔ زکوٰۃ کی ادائی کے بارے میں میری چند الجھنیں ہیں ۔ بہ راہِ کرم شریعت کی روشنی میں انھیں دور فرمائیں : (۱) فیکٹری میں کام کرنے والے ملازمین کے بچوں کی تعلیم، علاج معالجہ، شادی اور دیگر مواقع پر میں ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ ان کی کچھ مالی مدد کی جائے۔ کیا انھیں زکوٰۃ کی مد سے کچھ رقم دی جاسکتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ بعض ملازمین ایسے بھی ہیں کہ اگر انھیں رقم دیتے وقت بتا دیا جائے کہ یہ زکوٰۃ کا مال ہے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔ کیا انھیں بغیر اس کی صراحت کے کچھ رقم دی جاسکتی ہے؟ کیا زکوٰۃ کی ادائی درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جسے دی جائے اسے صاف لفظوں میں یہ بھی بتایا جائے کہ یہ زکوٰۃ ہے؟ (۲) کیا جتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اسے فوراً یک مشت ادا کردینا ضروری ہے؟ یا اسے الگ رکھ کر اس میں سے تھوڑا تھوڑا بہ وقت ِ ضرورت خرچ کیا جاسکتا ہے؟ میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ زکوٰۃ کی رقم الگ کرکے رکھ لوں اور پورے سال اس میں سے تھوڑی تھوڑی رقم ضرورت مندوں کو دیتا رہوں ۔ لیکن مجھے شبہ ہے کہ جب تک زکوٰۃ کی رقم میری تحویل میں رہے گی میں اس کی عدم ادائی کا گناہ گار ہوں گا۔ (۳) بعض ملازمین قرض مانگتے ہیں ، مگر پھر اسے ادا نہیں کرتے۔ بارہا تقاضوں کے باوجود ان سے قرض کی رقم واپس نہیں مل پاتی۔ کیا رقم زکوٰۃ کو اس میں ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے، کہ میں ان ملازمین سے قرض مانگنا چھوڑدوں اور اس کے بہ قدر رقم واجب الادا زکوٰۃ میں سے روک لوں ؟
جواب

بہ قدر نصاب مال کسی شخص کے پاس ایک سال تک رہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے۔ سال پورا ہونے کے بعد وہ کبھی بھی زکوٰۃ ادا کرسکتا ہے۔ اس کے لیے رمضان کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن اگر کسی نے رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالنے کا معمول بنا رکھا ہے تو یہ بھی اچھا ہے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ رمضان میں اپنی زکوٰۃ نکالا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ فرماتے تھے: ’لوگو! یہ تمھاری زکوٰۃ کی ادائی کا مہینا ہے، اس لیے اپنے قرض ادا کرلو، تاکہ جو مال بچے اس کی زکوٰۃ ادا کرو۔‘ (۱)
آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :
(۱) زکوٰۃ کی ادائی کے لیے ضروری ہے کہ کوئی شخص زکوٰۃ کی نیت سے کچھ مال کسی شخص کو دے۔ اس کے بغیر زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ لیکن جس شخص کو مال دیا جا رہا ہے اس کے علم میں یہ بات آنی ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے۔
ولا یشترط علم آخذ الزکاۃ انھا زکاۃ ۔(۲)
’’اداے زکوٰۃ کی صحت کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اسے قبول کرنے والے کو معلوم ہو کہ یہ زکوٰۃ ہے۔‘‘
موجودہ دور کے عالم اسلام کے مشہور فقیہ شیخ و ہبۃ الزحیلی نے لکھا ہے:
’’اگر مسلمان اپنی زکوٰۃ کسی ایسے شخص کو دے دے جس کو وہ غریب گمان کرتا ہو یا وہ بہ ظاہر ضرورت مند دکھائی دیتا ہو تو اس کو یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ ہے۔‘‘ (۳)
مولانا مجیب اللہ ندویؒ فرماتے ہیں :
’’کسی مستحق کو اگر زکوٰۃ کا روپیہ دیا جائے تو اس کو بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکوٰۃ کا روپیہ ہے اور اگر بتانے میں اس کورنج پہنچنے کا اندیشہ ہو تو نہ بتانا ہی بہتر ہے۔ خاص طور پر اپنے قریبی اعز ّہ اور دوستوں کو بالکل ہی نہ بتانا چاہیے۔‘ ‘ (۴)
(۲) زکوٰۃ فرض ہونے کے بعد اسے فوراً بھی ادا کیا جاسکتا ہے اور کچھ تاخیر سے بھی۔ یک مشت بھی اس کی ادائی کی جاسکتی ہے اور اس میں سے تھوڑی تھوڑی رقم بھی حسب ضرورت خرچ کی جاسکتی ہے۔ لیکن محض رقم زکوٰۃ کو الگ رکھ لینے سے وہ ادا شدہ متصور نہ ہوگی، جب تک کہ وہ کسی مستحق کے ہاتھ میں نہ پہنچ جائے۔ اس لیے کہ اداے زکوٰۃ کے لیے ’تملیک‘ (کسی کو مال ِ زکوٰۃ کا مالک بنا دینا) ضروری ہے۔ جب زکوٰۃ کی وہ رقم کسی مستحق کو مل جائے گی تبھی وہ ادا سمجھی جائے گی۔ اسی وجہ سے فقہاء کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے قدرت کے باوجود اداے زکوٰۃ میں تاخیر کی تو وہ گنہ گار ہوگا۔ فقہائے احناف تاخیر سے ادائی کی اجازت دیتے ہیں ، لیکن وہ بھی ایسا کرنے کو مکروہ کہتے ہیں ۔(۱)
(۳) کسی شخص نے دوسرے کو ایک رقم بہ طور قرض دی، لیکن وہ اسے واپس نہیں کر پارہا ہے تو کیا قرض خواہ (قرض دینے والے) کے لیے جائز ہے کہ اس قرض کو زکوٰۃ میں ایڈجسٹ کردے اور قرض دار سے کہے کہ اب تمھیں قرض واپس کرنے کی ضرورت نہیں ۔ میں نے تمھیں اس کے بہ قدر زکوٰۃ دے کر اسے واپسیِ قرض مان لیا ہے؟ اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔
احناف، حنابلہ اور مالکیہ (امام شافعیؒ کا بھی ایک قول یہی ہے) کہتے ہیں کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اس لیے اس کی ادائی کے معاملے میں کوئی ایسی تدبیر اور حیلہ اختیار کرنا مناسب نہیں جس سے اپنا ڈوبا ہوا مال بچ جائے اور قرض واپس مل جائے۔ اداے زکوٰۃ کے لیے ’تملیک‘ ضروری ہے۔ جب تک اس مال کا کسی دوسرے کو مالک نہیں بنایا جائے گا اسے ادا نہ سمجھا جائے گا۔
تابعین میں سے حسن بصریؒ اور عطا بن ابی رباحؒ اور فقہاے مالکیہ میں سے اشہبؒ کہتے ہیں (اور امام شافعیؒ کا بھی ایک قول یہی ہے) کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ اپنی زکوٰۃ اس کے حوالے کردیتا، پھر اسی رقم کو اپنے قرض کے بدلے واپس لے لیتا تو ایسا کرنا درست ہوتا۔ اسی طرح رقم حوالے کیے بغیر بھی اسے ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔
جو لوگ عدم جواز کے قائل ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ اگر بغیر کسی پیشگی شرط اور معاہدے کے قرض خواہ نے قرض دار کو زکوٰۃ کی رقم دی اور قرض دار نے اسی سے اپنا قرض ادا کردیا تو ایسا کرنا صحیح ہوگا۔ لیکن اگر اس نے پہلے سے شرط لگالی اور معاہدہ کرلیا کہ میں تمھیں زکوٰۃ دے رہا ہوں ، تمھیں اسی سے میرا قرض ادا کرنا ہوگا، تو یہ معاملہ کرنا صحیح نہ ہوگا اور زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔(۱)