جواب
جہاں تک دیگر مذہبی گروہوں کی مقدّس کتابوں کا مطالعہ کرنے کا معاملہ ہے تو اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں :
اول یہ کہ اس عقیدے کے ساتھ ان کا مطالعہ کیا جائے کہ ان سے ہدایت حاصل ہوگی۔ یہ حرام ہے ۔
دوم یہ کہ ان کا مطالعہ محض معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا جائے ۔ یہ جائز ہوسکتا ہے ، لیکن اس سے احتراز ہی اولیٰ ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عمر بن الخطاب ؓ کے ہاتھ میں توراۃ کے کچھ اوراق دیکھے تو سخت ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا ’’کیا مجھ میں شک کرتے ہو؟ اے ابن خطاب! میں تمھارے پاس واضح اور صاف و شفّاف شریعت لے کر آیا ہوں ۔ اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ ‘‘(دارمی۴۴۹ ، احمد۱۵۱۵۶، ۱۴۶۳۱)
سوم یہ کہ ان کا مطالعہ اس مقصد سے کیا جائے کہ ان میں جو باتیں صحیح ہیں ، جن کی قرآن بھی تائید کرتا ہے ، ان سے واقفیت ہو ، تاکہ ان قوموں کے سامنے اسلام کی دعوت مؤثر انداز میں پیش کی جاسکے اور جو لوگ اسلام کی مخالفت کرتے ہیں ان کا رد کیا جا سکے تو یہ جائز ہے ، البتہ یہ احتیاط ملحوظ رکھنی ضروری ہے کہ ان کی غلط فہمی یا گم راہی دور کرنے کے لیے صرف انہی کتابوں کے حوالے اور اقتباسات پیش کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے ، بلکہ لازماً ان کے سامنے قرآن مجید کی تعلیمات بھی پیش کی جائیں کہ وہی اصل ہے اور اسی سے ہدایت حاصل کی جا سکتی ہے ۔