براہِ کرم میرے چند سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں
۱- کیا کوئی شخص اپنے بیٹے کے ہوتے ہوئے اپنے داماد سے وہ تمام کام کروا سکتا ہے جو بیٹے سے کروانے چاہئیں۔
۲- کسی شخص کے لیے اپنے ماں باپ کے رہتے ہوئے ساس سسر کی خدمت کرنا کیسا ہے، جب کہ ساس سسر کا اپنا بیٹا ہو؟
۳- اسلام میں کیا کسی پر احسان کرکے گھر داماد رکھا جا سکتا ہے؟
جواب
قرآن مجید میں رشتوں کا احترام اور ان کی پاس داری کرنے اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا (النساء۱)
’’اور اللہ سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘
سورۃ الرعد میں اولو الالباب (دانش مندوں) کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ وصف بھی ہے
وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْۗءَ الْحِسَابِ (الرعد ۲۱)
’’اُن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور سخت حساب کا اندیشہ رکھتے ہیں۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے
’’اس سے مراد رشتۂ رحم کا پاس و احترام ہے، یعنی جس طرح وہ اللہ کے حقوق کا دل سے احترام کرتے ہیں، اسی طرح بندوں کے جو حقوق ان پر بر بنائے رشتۂ رحم عائد ہوتے ہیں ان کو بھی پوری فیاضی سے ادا کرتے ہیں۔ وہ رشتۂ رحم کو کاٹتے نہیں، بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق اس کو جوڑتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ کسی نمود و نمائش یا غرض کے لیے نہیں، بلکہ خدا کے ڈر سے اور اس کی رضا جوئی کے لیے کرتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن)
احادیث نبوی میں بھی رشتے داروں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے
قَالَ اللَّهُ أَنَا الرَّحْمٰنُ وَهِيَ الرَّحِمُ شَقَقْتُ لَهَا اسْمًا مِنَ اسْمِي مَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ۔ (ابودائود۱۶۹۴، ترمذی۱۹۰۷)
’’اللہ فرماتا ہے میں رحمٰن ہوں اور وہ رحم (رشتہ) ہے۔ میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا ہے۔ جس نے اسے جوڑا، میں اسے جوڑوں گا، جس نے اسے کاٹا، میں اسے کاٹ دوں گا۔‘‘
حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
لَيْسَ شَيْءٌ أُطِيْعَ اللهَ فيه أعجَلَ ثوابًا من صِلةِ الرحِمِ
(صحيح الجامع۵۳۹۱، بيهقي۲۰۳۶۴)
’’اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سے صلہ رحمی سے زیادہ جلد کسی اور کام پر ثواب نہیں ملتا‘‘
اللہ تعالی نے رشتوں کے دو سلسلے چلائے ہیں ایک کا تعلق نسب سے ہے اور دوسرے کا سسرال سے۔ دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا
وَہُوَالَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا۰ۭ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا (الفرقان ۵۴)
’’اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے‘‘
اس آیت کی تشریح میں مولانا سید ابوالاعلی مودویؒ نے لکھا ہے
’’یعنی بجائے خود یہی کرشمہ کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر پانی کی بوند سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بناکر کھڑی کرتا ہے، مگر اس پر مزید کرشمہ یہ ہے کہ اس نے انسان کا بھی ایک نمونہ نہیں، بلکہ دو الگ الگ نمونے (مرد و عورت) بنائے، جو انسانیت میں یکساں، مگر جسمانی ونفسانی خصوصیات میں نہایت مختلف ہیں اور اس اختلاف کی وجہ سے وہ باہم مختلف ومتضاد نہیں، بلکہ ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہیں۔ پھر ان جوڑوں کو ملاکر وہ عجیب توازن کے ساتھ (جس میں کسی دوسرے کی تدبیر کا ادنی دخل بھی نہیں ہے) دنیا میں مرد بھی پیدا کرتا ہے اور عورتیں بھی، جن سے ایک سلسلۂ تعلقات بیٹوں اور پوتوں کا چلتا ہے، جو دوسرے گھروں سے بہویں لاتے ہیں اور ایک دوسرا سلسلۂ تعلقات بیٹیوں اور نواسیوں کا چلتا ہے، جو دوسرے گھروں کی بہویں بن کر جاتی ہیں۔ اس طرح خاندان سے خاندان جڑ کر پورے پورے ملک ایک نسل اور ایک تمدن سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن)
صلہ رحمی کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ نسبی اور سسرالی دونوں رشتوں کا احترام کیا جائے اور ان رشتوں سے جڑنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور حسبِ توفیق ان کی خدمت کی جائے۔
شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنے حقیقی ماں باپ کی طرح اپنے سسر اور ساس کا بھی احترام کرے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اسی طرح بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ساس اور سسر کو اپنے حقیقی ماں باپ کا درجہ دے،ان کے ساتھ احترام اور محبت سے پیش آئے اور حسب ِتوفیق ان کی خدمت کرے۔ دوسری طرف گھر کے بزرگوں (مرد اور عورت) کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ بہو کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئیں، اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کریں اور اس کی طرف سے خدمت ملنے پر اظہارِ تشکّر کریں۔ اسی طرح داماد سے بھی الفت ومحبت کا رشتہ رکھیں، وقتِ ضرورت اس کے کام آئیں اور اس کو اپنی خوشی اور غم میں شریک کریں اور اپنےخاندان کا حصہ سمجھیں۔
نسبی اور سسرالی دونوں طرح کے رشتوں کی پاس داری سے مضبوط اور مستحکم خاندان وجود میں آتا ہے، جس کے تمام افراد باہم شیر و شکر ہوکر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے کام آتے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔ خوشیوں میں شریک ہوتے اور مصیبت میں ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔ باپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو سعادت مند بیٹے کو آگےبڑھ کر اسے پورا کرنا چاہیے۔ اس کی توجہ نہ ہوسکے تو باپ حکم دے کر بیٹے سے وہ کام کرواسکتا ہے۔ اسی طرح اگر بیٹا وہ کام نہ کرسکے، یا کسی وجہ سے باپ بیٹے سے وہ کام کرنے کے لیے نہ کہہ سکے تو وہ داماد سے اس کام کو کرواسکتا ہے۔ اسی طرح داماد اپنی ساس سسر کا کوئی کام خوش دلی سے کرسکتا ہے، چاہے ان کے اپنے بیٹے موجود ہوں۔
کسی شخص کا کوئی بیٹا نہ ہو یا اس کے بیٹے ہوں، وہ اپنی آسانی کے لیے یا داماد کو سہولت پہنچانے کی غرض سے اپنے گھر رکھ سکتا ہے۔ وراثت میں داماد کا کوئی حصہ نہیں، لیکن بیٹوں کو محروم کیے بغیر کوئی شخص کسی رواج وغیرہ کے جبر کے بغیر اپنے دل کی خوشی سے حسبِ ضرورت داماد کو کچھ ہبہ کرسکتا ہے، یا ایک تہائی حصہ تک اس کےحق میں وصیت کرسکتا ہے۔
مذکورہ بالا تمام سوالات پر صلہ رحمی کے پس منظر میں غور کیا جائے تو کوئی اشکال وارد نہیں ہوگا اور رشتے داروں کا ایک دوسرے کا تعاون کرنا مطلوب ومحمود عمل قرار پائے گا۔