سسرال میں لڑکی کے حقوق اورفرائض

’مشترکہ خاندان میں رہائش ‘ کے عنوان کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ مسئلے کے تمام پہلؤوں کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ آغاز ہی میں کہا گیا ہے کہ ’’مشترکہ خاندان میں بڑے مفاسد پائے جاتے ہیں ‘‘ جب کہ مفاسد اور خوبیاں تو مشترکہ اور علیٰحدہ دونوں طرح کے خاندانی نظاموں میں پائی جاتی ہیں ۔اصل سوال یہ ہے کہ بیوی اور شوہر، ساس اور بہو، بھابھی اور نند مشترکہ خاندان میں پیش آنے والے مسائل سے کیسے نپٹیں ؟یا ان کو کیسے سلجھائیں ؟ ان افراد کا رویہ ہی دراصل خاندانی نظام کو خوش گوار بنانے میں مدد دیتا ہے، یا بگاڑنے کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ اصل مسئلہ مشترکہ یا علیٰحدہ نظام کا نہیں ، بلکہ اس سے جڑے افراد کے رویوں کا ہے۔ اس سلسلے میں اگر ذیل کی باتوں پر روشنی ڈالی جائے تو آج کی ایک اہم ضرورت پوری ہوگی: (۱) کیا علیٰحدہ نظامِ خاندان شرعی حیثیت سے لازمی ہے؟ اگر اسلام دونوں (یعنی مشترکہ اور علیٰحدہ) نظاموں کی اجازت دیتا ہے تو اس کی وضاحت قرآن اور حدیث کی روشنی میں کیجیے۔ (۲) کیا نکاح سے پہلے لڑکا یا لڑکی کی طرف سے یہ شرط یا معاہدہ طے ہونا چاہیے کہ وہ نکاح کے بعد کیسے رہنا پسند کرے گایا کرے گی؟ (۳) اگرمشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کی بات طے ہوجاتی ہے تو اس کے شرعی حدود متعین ہونے چاہئیں ۔ اس خاندان کا مالک یا مالکہ یا ناظمہ کون ہوں گے؟ اور ان کی اطاعت اسلامی حدود کے اندر کیسے کی جانی چاہئے؟بہ حیثیت ناظمہ یا امیر ساس یا خسر کے اختیارات اور حدود کیا ہوں گے؟ اور بہ حیثیت ماتحت یا مامور بہو کے کیا اختیارات اور ذمے داریاں ہوں گی؟ جب تک ساس یا خسر معصیت یا ظلم کا حکم نہ دیں ، پسند اور ناپسند سے پرے اطاعت کا رویہ کیا ہونا چاہئے؟ یہ تو قانونی باتیں ہیں ، اخلاقی اور صلح کل کا رویہ اور اس کے تقاضے دوسرے ہیں ۔ لیکن یہ بات قانونی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے واضح کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ شرعی مسئلہ تو یہی ہے کہ بیوی کی ذمے داری اصلاً صرف شوہر کی خدمت ہے، جیسا کہ آپ نے بتایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بیوی شوہر کے ماں باپ کی خدمت یا مشترکہ خاندان کے دوسرے کاموں میں حصہ لے گی تو یہ اس کی شرعی ذمے داری سے زائد ہوگا اور یہ ایک طرح کا احسان ہوگا جو وہ اپنے شوہر کی خاطر کرے گی۔ احسان کرنے کا احساس لازماً بیوی کے اندر احساسِ برتری پیدا کردیتا ہے، جو گھر کے ماحول اور ازدواجی زندگی کو بگاڑنے کا سبب بن رہا ہے۔ بالخصوص تحریک اسلامی سے وابستہ خواتین اور لڑکیوں کے اندر اس حق (یعنی ان پر صرف شوہر کی اطاعت یا خدمت کی ذمے داری ہے) کا شعور بلاوجہ احساسِ برتری پیدا کر رہا ہے، جس کی بنا پر خاندانی نظام اورازدواجی زندگی میں بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
جواب

نکاح کے ذریعے ایک خاندان وجود میں آتا ہے۔ لڑکا اور لڑکی، جن کے درمیان رشتۂ نکاح قائم ہوتا ہے،اس کے بنیادی ارکا ن ہوتے ہیں ۔ نکاح سے قبل لڑکی اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں کے درمیان رہتی ہے اور ان کے پیار ومحبت کے سایے میں اس کی پرورش ہوتی ہے۔ نکاح کے بعد وہ اپنے شوہر کے گھر منتقل ہوتی ہے تو وہاں ویسے ہی افراد اس کا استقبال کرتے ہیں ۔ ساس اور سسر کی حیثیت ماں باپ کی سی ہوتی ہے۔ جس طرح لڑکی اپنے حقیقی ماں باپ سے محبت اور احترام کرتی ہے اسی طرح کی محبت اور احترام کے، اس کی ساس اور سسر بھی مستحق ہوتے ہیں ۔ سسرال کے دوسرے افراد سے بھی اس کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ اس لیے رشتے داروں کے جو حقوق قرآن وحدیث میں بیان کیے گئے ہیں اور صلہ رحمی کی جتنی تاکید کی گئی ہے، اس کی انجام دہی ایک نیک، دین دار اور شریف لڑکی کی پہچان ہے۔
لڑکی اپنے گھر سے سسرا ل منتقل ہوتی ہے تو اپنے ساتھ کچھ حقوق لے کر آتی ہے اور کچھ فرائض اس پر عائد ہوتے ہیں ۔ اس کے حقوق سے تجاہل برتنا اور صرف فرائض کی انجام دہی کا مطالبہ کرنا مبنی بر انصاف رویہ نہیں ہے۔ نئی نویلی دلہن کاحق ہے کہ اسے اپنے شوہر کے ساتھ آزادانہ خلوت کے مواقع حاصل ہوں ۔گھر میں اسے اتنی آزادی ہو کہ وہ اپنے شوہر کے حسبِ منشا اس کے لیے زیب وزینت اختیار کرسکے۔ سسرالی رشتے داروں میں سے جو اس کے لیے نامحرم ہوں ، ان سے وہ پردہ کرسکے۔ اگر وہ گھر گرہستی کے کچھ سامان اپنے میکے سے لائی ہو تو ان پر مالکانہ تصرف کرنے کا اسے اختیار ہو۔ اپنی مملوکہ چیزوں کی حفاظت اس کے بس میں ہو۔ نظامِِ خاندان میں اسلام نے شوہر کو ’قوّام ‘ یعنی نگراں و منتظم بنایا ہے۔ بیوی کی ذمے داری ہے کہ معر وف میں اس کی اطاعت کرے اور اس کی مرضی کے خلاف کاموں سے بچے۔
ہمارے ملک میں ہندو کلچر کے زیراثر مشترکہ خاندانی نظام کو پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے، نفری قوت، جائداد کا ارتکاز اور دیگرفائدے بیان کیے جاتے ہیں ، لیکن دینی نقطۂ نظر سے اس میں جو مفاسد پائے جاتے ہیں انہیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ بیوی کو شوہر کے ساتھ آزادانہ خلوت اور زیب وزینت اختیار کرنے کے مواقع حاصل نہیں ہوتے اور بہو نہ صرف ساس ،سسر ، بلکہ نندوں اور دیوروں کی بھی خادمہ بن کر رہ جاتی ہے۔ یہی نہیں ، بلکہ اس میں پردہ کے تقاضے بھی بری طرح مجروح ہوتے ہیں ۔
ایک سوال کے جواب میں راقم نے اسی ہندوانہ کلچر پر نقد کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’ہمارے ملک میں مشترکہ خاندانی نظام کی جو صورت رائج ہے اس میں بڑے مفاسد پائے جاتے ہیں ‘‘۔ آگے اس کی کچھ تفصیل بھی بیان کی تھی، لیکن سائل نے اس تفصیل کو نظرانداز کردیا اور مذکورہ بالا جملہ کو مختصر کرکے میری طرف یہ جملہ منسوب کردیا: ’’مشترکہ خاندان میں بڑے مفاسد پائے جاتے ہیں ‘‘۔ درست رویہ تو یہ تھا کہ پوری بات نقل کی جاتی، پھر اس پر نقد کیاجاتا۔
شوہر کے خونی رشتے داروں : ماں باپ بھائی بہنوں کی ذمے داری ہے کہ اس کی بیوی کے ساتھ اچھا برتائو کریں ، اسے اپنی خادمہ نہ سمجھیں ،بلکہ اس سے محبت کا اظہار کریں ، ساس سسر اسے اپنی بیٹی سمجھیں اور نند دیور اسے بہن کا درجہ دیں ۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو گھر میں آنے والی دلہن بھی ان سے قربت محسوس کرے گی، ان کے درمیان رہ کر اسے خوشی ومسرت حاصل ہوگی اوران کے چھوٹے موٹے کام انجام دے کر اسے طمانینت اور سرور حاصل ہوگا۔ لیکن اگر اسے طعنے سننے کو ملیں ، بات بات پر اسے ٹوکا جائے، اس کے کاموں میں خامیاں نکالی جائیں تو وہ اذیت اور بے اطمینانی محسوس کرے گی اور اس کا سکون غارت ہوجائے گا۔ اس صورتِ حال میں اگر وہ اپنے شوہر سے علیٰحدہ رہائش فراہم کرنے کا مطالبہ کرے تو یہ اس کا حق ہے جس سے اسے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے۔ یہاں صرف ایک اقتباس نقل کیاجاتا ہے۔ فقہ حنفی کے مشہور امام علامہ کاسانیؒ فرماتے ہیں :
ولوأراد الزوج أن یسکنہا مع ضرّتہا أومع أحمائہا کأمّ الزوج وأختہ وبنتہ من غیرھا وأقاربہ فأبت ذلک‘ علیہ ان یسکنہا فی منزل مفرد، لانھن ربمایؤذینہا ویضررن بہا فی المساکنۃ، وإباؤھا دلیل الأذی والضرر۔
(بدائع الصنائع ، کتاب النفقۃ: ۳؍۴۲۸۔ ۴۲۹)
’’اگر شوہر اپنی بیوی کو اس کی سوکن یا اس کے سسرالی رشتے داروں ، مثلاً ساس، نند، دوسری بیوی سے اپنی لڑکی یا دوسرے رشتے داروں کے ساتھ رکھنا چاہے اور بیوی اس سے انکار کرے تو شوہر پر لازم ہے کہ اس کے لیے الگ رہائش فراہم کرے۔ اس لیے کہ بسا اوقات اسے ان سے اذیت اور ضرر پہنچ سکتا ہے۔ اس کا ان کے ساتھ رہنے سے انکار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسے ان سے اذیت اور ضرر پہنچ رہا ہے ‘‘۔
مشترکہ خاندانی نظام میں بیوی کو شوہر کے ساتھ خلوت (PRIVACY) کے مواقع کم حاصل ہوپاتے ہیں ۔ اس کا حل بھی یہ ہے کہ یاتو اسے علیٰحدہ رہائش فراہم کی جائے، یا گھر کا کوئی حصہ اس کے لیے خاص کردیا جائے، جس میں سسرال کے دیگر افراد کا کچھ عمل دخل نہ ہو۔ فقہاء نے اس کی بھی صراحت کی ہے ۔ علامہ کاسانیؒ نے آگے لکھا ہے:
ولأنہ یحتاج الی أن یجامعہا ویعاشرھا فی أیّ وقت یتفق، ولا یمکنہ ذلک اذا کان معہما ثالث، حتی لوکان فی الدار بیوت ففرغ لہا بیتاً وجعل لبیتہا غلقاً علی حدۃ، قالوا انہا لیس لہا ان تطالبہ ببیت آخر۔ (حوالہ سابق)
’’نیز شوہر کو اس کے ساتھ کسی بھی وقت جنسی تعلق اور خلوت کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اور یہ ممکن نہیں ،اگر ان کے ساتھ کوئی تیسرا بھی ہو۔ البتہ اگر ایک بڑے گھر میں کئی کمرے ہوں اور شوہر ان میں سے ایک کمرہ بیوی کے لیے خاص کردے اور اس کا تالا چابی اسے دے دے تو فقہاء نے کہا ہے کہ پھر بیوی کو علیٰحدہ گھر کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے ‘‘۔
اس معاملے میں ہمارے سامنے رسول اللہﷺ کا اسوہ موجود ہے۔ حضرت علی ؓ آپؐ کے چہیتے چچا جناب ابوطالب کے بیٹے تھے۔ بچپن سے آپؐ کی پرورش میں آپؐ کے گھر میں رہے۔ ان کی حیثیت گھر کے ایک فرد کی تھی۔ لیکن جب آپؐ نے اپنی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ کا ان سے نکاح کردیا تو دونوں کے لیے علیٰحدہ رہائش فراہم کی۔
سائل اعتراف کرتے ہیں کہ ’’شرعی مسئلہ تو یہی ہے کہ بیوی کی ذمےد اری اصلاً صرف شوہر کی خدمت ہے ‘‘۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ چوں کہ شوہر کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے بیوی اس کے ماں باپ یا دوسرے رشتے داروں کی بہ طور احسان جو خدمت کرتی ہے ، اس سے اس کے اندر احساس برتری پیدا ہوجاتا ہے، جو خاندان میں بگاڑ کا سبب ہے، اس لیے اس کا تدارک کیا جانا چاہیے۔‘‘ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا حل یہ نہیں ہے کہ شوہر کے گھر والوں کی خدمت کرنا بیوی کے فرائض میں شامل کردیا جائے اور اسے بہ جبر اس کا پابند کیاجائے،بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ اس کی خدمت کی قدر کی جائے، اس کاشکریہ ادا کیا جائے اور اس سے محبت کی جائے۔ ہر شخص محبت کا بھوکا ہوتا ہے۔ کسی سے محبت کی جائے گی تو وہ بھی اس کا جواب محبت سے دے گا۔ گھر کے افراد ایک دوسرے سے تعلقِ خاطر رکھیں گے تو ماحول خوش گوار ہوگا اور پیار ومحبت کے شادیانے بجیں گے۔
کوئی شخص کسی کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے تو اس کے نتیجے میں احسان کرنے والے کے دل میں احساس ِ برتری پیداہونا صحیح اور مطلوبہ رویہ نہیں ہے۔ آدمی کسی کی خدمت کرے تو اسے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اس کی توفیق دی اور اس پر اس سے اجر وثواب کی امید رکھنی چاہیے ۔ کسی اجنبی کی کچھ مدد کردی جائے، کسی غریب کو کچھ پیسے دے دیے جائیں یا کسی معذور کا کوئی کام کردیا جائے تو اس سے احساسِ برتری نہیں پیدا ہوناچاہیے اور اگر یہ احساس پیدا ہوتا ہے تو دینی و شرعی اعتبار سے غلط ہے۔ پھر شوہر کے گھر والوں سے تو بیوی کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی قرآن و حدیث میں تاکید کی گئی ہے اوراس کا بڑا اجر بیان کیا گیا ہے۔ اگر نیک بیوی اس پہلو کو پیشِ نظر رکھے گی تو اس کے اندر کبھی احساسِ برتری نہیں پیدا ہوسکتا۔