سفر میں روزہ

سفر میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے رخصت ہے، اس لیے اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دوسری جانب آج کے دور میں سفر بڑے آرام دہ اور پرتعیش ہوگئے ہیں ۔ ذرا بھی دشواری اور پریشانی کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ بسا اوقات سفر میں گھر سے زیادہ آرام ملتا ہے۔ اس صورت حال میں کیا یہ بہترنہ ہوگا کہ اگر رمضان میں کہیں سفر کرنا پڑ جائے تو دوران ِ سفر بھی روزہ رکھ لیا جائے؟
جواب

ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی سفر میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍط فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط (البقرۃ: ۱۸۴)
’’چند مقررہ دنوں کے روزے ہیں ۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔‘‘
اس آیت میں رمضان کے دنوں میں روزہ نہ رکھنے اور دوسرے دنوں میں ان کی قضا کرنے کی اجازت مشقت اور پریشانی سے متعلق نہیں کی گئی ہے کہ اگر مشقت ہو تو روزہ نہ رکھو، مشقت نہ ہو تو روزہ رکھو، بلکہ اس اجازت کو سفر سے متعلق کیا گیا ہے۔ اس لیے سفر چاہے پُر مشقت ہو یا آرام دہ، آدمی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے اور یہ تقویٰ و پرہیزگاری کے بھی خلاف نہیں ہے۔
سفر میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے معمولات اور ہدایات دونوں طرح کی ملتی ہیں ۔ بعض اسفار میں آپؐ نے کچھ دن روزہ رکھا، اس کے بعد ترک کردیا اور صحابہ کو یہ بتانے کے لیے کہ آپؐ روزہ سے نہیں ہیں ، آپؐ نے دودھ کا پیالہ منگوایا اور سب کے سامنے اسے نوش فرمایا۔ (۱)
ایک سفر میں کچھ لوگ روزہ سے تھے اور کچھ روزہ سے نہیں تھے۔ پڑاؤ پر پہنچے تو روزہ دار نڈھال ہوکر لیٹ گئے اور جو روزہ سے نہیں تھے انھوں نے خیمے لگائے اور دوسرے کام انجام دیے۔آپؐ نے روزہ داروں کے مقابلے میں غیر روزہ داروں کی تعریف و تحسین فرمائی۔ (۲) ایک موقع پر آپؐ نے دیکھا کہ ایک بزرگ بڑے نڈھال سے ہیں ، لوگوں نے ان پر سایہ کر رکھا ہے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: انھیں کیا ہوگیا ہے؟ آپ کو بتایا گیا کہ یہ روزہ سے ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا ’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔‘‘ (۳)
دوسری طرف ایسی روایات بھی ملتی ہیں کہ سفر میں آپؐ نے بھی روزہ رکھا ہے اور صحابۂ کرام نے بھی۔ حضرت انس بن مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ کچھ لوگ روزہ رکھتے تھے اور کچھ نہیں رکھتے تھے، لیکن کوئی کسی کو ملامت نہیں کرتا تھا۔‘‘ (۴)
حضرت ابو سعید الخدریؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے بارہا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایسے سفر کیے ہیں کہ آپؐ بھی روزہ رکھتے تھے اور ہم بھی۔‘‘ (۱)
حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ نے ایک مرتبہ آں حضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی:
’’اے اللہ کے رسول، میں اکثر سفر پر رہتا ہوں ۔ بسا اوقات دوران سفر رمضان آجاتاہے۔ میں نوجوان ہوں ، روزہ رکھ سکتا ہوں ۔ مجھے یہ آسان معلوم ہوتا ہے کہ دوران ِ سفر روزہ رکھ لوں ، اس کے مقابلے میں کہ نہ رکھوں اور بعد میں مجھے اس کی قضا کرنی پڑے۔ اس صورت حال میں میرا روزہ رکھنا بہتر ہے یا نہ رکھنا؟ آپؐ نے فرمایا:
اِنْ شِئْتَ فَصُمْ وَ اِنْ شِئْتَ فَاَفْطِرْ ۔(۲)
’’چاہو تو روزہ رکھو اور چاہو تو نہ رکھو۔‘‘
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سفر میں آدمی کو اختیار ہے۔ چاہے روزہ رکھ لے، چاہے نہ رکھے اور بعد میں اس کی قضا کرے۔