جواب
سنن ابی داؤد میں مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقعے پر اللہ کے رسول ﷺ نے، جو خطبہ دیا تھا اس میں یہ بھی فرمایا تھا:
اِنِّیْ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَالَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہٗ اِنْ اِعْتَصَمْتُمْ بِہٖ، کِتَابَ اللّٰہِ۔ (ابو داؤد، کتاب المناسک، باب صفۃ حجۃ النبیؐحدیث: ۱۹۰۵)
’’میں تمھارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑ کر جارہاہوں ، جسے اگر تم مضبوطی سے تھامے رہے تو ہرگز گم راہ نہ ہوگے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب۔‘‘
قریب قریب یہی الفاظ ابن ماجہ کے بھی ہیں ۔ (کتاب المناسک، باب حجۃ رسول اللہ ﷺ، حدیث: ۳۰۷۴) لیکن بعض روایتوں میں کتاب اللہ کے ساتھ سنت رسول اللہ کا بھی ذکر ہے۔ حاکم نے حضرت ابوہریرہؓ سے خطبۂ حجۃ الوداع ہی کے ذیل میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں :
تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَ ھُمَا کِتَابَ اللّٰہِ وَ سُنَّتِی وَ لَنْ یَّتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَی الْحَوْضِ۔
(التیسیر بشرح الجامع الصغیر، مناوی، ۱/۴۴۷)
’’میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں ۔ ان کے بعد تم ہرگز گم راہ نہ ہوگے۔ وہ دو چیزیں ہیں ۔ اللہ کی کتاب اور میری سنت۔ یہ دونوں جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ وہ حوض کوثر پر آئیں گی۔‘‘
اس مفہوم کی روایت مؤطا امام مالک میں بھی موجود ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں :
تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا کِتَابَ اللّٰہِ وَ سُنَّۃَ نَبِیِّہٖ۔ (کتاب القدر، باب النھی عن القول بالقدر، حدیث: ۳۸۵۱)
’’میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں ۔ جب تک تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے راہ راست سے نہ بھٹکوگے۔ وہ ہیں اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ کی سنت۔‘‘
اس سے قرآن مجید کے ساتھ حدیث اور سنت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ یہی دین کے دو بنیادی ماٰخذ ہیں ۔ یہ ہدایت کے وہ سرچشمے ہیں ، جن سے قیامت تک رہ نمائی حاصل کی جاتی رہے گی اور اختلافات میں رجوع کیا جاتا رہے گا۔ اگر حدیث صحت کے ساتھ ثابت ہوجائے تو قرآن کے بعد اسی کا مقام ہوگا اور اسی پر اعتماد کیا جائے گا۔