جواب
آپ کے سوالات کے مختصر جواب درج ذیل ہیں :
۱- بینک اور لائف انشورنس کمپنیاں چوں کہ سودی کاروبار میں ملوث ہوتی ہیں ، اس لیے عام حالات میں ان کی ملازمت جائز نہیں ۔
۲- کسی شخص کا ذریعۂ آمدنی مکمل طور پر ناجائز ہو یا اس کی آمدنی کا بڑا حصہ ناجائز کمائی پر مشتمل ہو تو اس کی دعوت نہیں قبول کرنی چاہیے۔
اس موضوع پر موجودہ دور کے ایک بڑے عالم دین، مفتی اور اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے بعض فتاویٰ ان کی کتاب ’الفتاویٰ‘ سے نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے:
’’LICمیں سود بھی ہے اور جو ابھی، اس لیے جائز نہیں اور اس جیسے گناہ کا ارتکاب جائز نہیں ۔ اسی طرح گناہ کے کام میں تعاون اور لوگوں کو اس کام کی طرف دعوت دینا بھی جائز نہیں ۔ LIC ایجنٹ کو بھی ظاہر ہے کہ لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنا پڑتا ہے، اس لیے یہ صورت جائز نہیں ۔‘‘ (کتاب الفتاویٰ، طبع دیوبند، ۵/۳۶۰- ۳۶۱)
دعوت قبول کرنے کے سلسلے میں انھوں نے لکھا ہے:
’’اگر کسی شخص کا صرف سودی ہی کاروبار ہو یا زیادہ تر آمدنی سود پر مبنی ہو اور معلوم نہ ہو کہ دعوت کس رقم سے کی جا رہی ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا درست نہیں ۔ اگر اس کی آمدنی زیادہ تر حلال پر مشتمل ہو یا اس نے صراحت کردی ہو کہ میں حلال حصہ یا آمدنی ہی سے دعوت کر رہا ہوں تو دعوت قبول کی جاسکتی ہے۔
اگر کسی شخص کے بارے میں یہ بات معلوم نہ ہو کہ اس کا کوئی کاروبار حرام پر بھی مبنی ہے تو ایسے شخص کے یہاں دعوت میں حلال و حرام کی بابت پوچھنا درست نہیں ۔ کیوں کہ اس میں مسلمان کی ایذا اور توہین ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (کتاب الفتاویٰ، ۶/۲۰۰)
’’اگر معلوم ہو کہ دعوت سودی پیسے سے کی جا رہی ہے تب تو دعوت میں شریک ہونا قطعاً جائز نہیں ہے اور اگر دعوت کا حلال پیسے سے ہونا معلوم ہو تو دعوت میں شرکت جائز ہے اور متعین طور پر اس کا علم نہ ہو تو پھر اس بات کا اعتبار ہوگا کہ اس کی آمدنی کا غالب ذریعہ کیا ہے؟ اگر غالب حصہ حرام ہے تو دعوت میں شرکت درست نہیں اور غالب حصہ حلال ہے تو دعوت میں شرکت جائز ہے۔
سود خور سے تعلقات رکھنے اور اس کی تقریبات خوشی میں شرکت کرنے کا حکم بھی تقاضائے مصلحت سے متعلق ہے۔ یوں تعلق تو کافر و مشرک سے بھی رکھا جاسکتا ہے۔ پس اگر سود خود سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس کی خصلت بد سے متاثر ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو تعلق رکھنا جائز ہے اور اس کی اصلاح کی امید کی نیت ہو تو بہتر ہے، ورنہ اجتناب بہتر ہے۔ کیوں کہ بری صحبت سے نفع کی امید نہیں اور نقصان کا اندیشہ ہے۔‘‘ (ایضاً: ۶/۲۰۱)