ایک صاحب نے ایک ضرورت مند کو ایک مدت کے لیے قرض دیا۔ کئی سال گزرنے کے باوجود وہ قرض واپس نہیں دے پا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے کاروبار میں بھاری نقصان ہوگیا ہے۔ ادھر قرض دینے والے کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اسے رقم کی شدید ضرورت ہے۔ اس حالت میں ایک صاحب کے پاس سود کی کچھ رقم ہے، کیا وہ اسے مقروض کو دے سکتے ہیں، تاکہ وہ اپنا قرض ادا کر سکے؟
یہ بھی واضح فرمائیں کہ اگر قرض دینے والے کے علم میں آجائے کہ میرے قرض کی واپسی سود کی رقم سے کی جارہی ہے، کیا پھر بھی اس کے لیے وہ رقم لینا جائز ہے؟
جواب
کسی ضرورت مند کی مدد کرنے اور اس کی ضرورت پوری کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے
وَاللّٰہُ فِی عَونِ العَبْدِ مَا کَانَ العَبْدُ فِی عَونِ أخِیهِ (مسلم۲۶۹۹)
’’اللہ اپنے بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے، جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔‘‘
مدد کسی بھی طرح کی ہو سکتی ہے جسمانی، صلاح ومشورہ کے ذریعے اور مالی۔ مالی مدد کی بھی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ اوّل یہ کہ زکوٰة و صدقات کے ذریعے کسی کو مال کا مالک بنا دیا جائے کہ وہ جیسے چاہے اسے خرچ کرے۔ دوم یہ کہ مال کی ملکیت اپنے پاس رکھی جائے اور دوسرے کو اسے صرف بہ طور قرض دیا جائے کہ وہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے اور جب اس کے پاس کشادگی آجائے تو مال واپس کردے۔
کسی ضرورت مند کو قرض دینے اور اگر وہ لیے ہوئے قرض کو وقت پر واپس نہ کرسکے تو اسے مہلت دینے کی احادیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا
کَلُّ قَرْضٍ صَدَقَةٌ (بیہقی فی شعب الایمان۳۵۶۳)
’’قرض پر صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔‘‘
حضرت بریدہ اسلمیؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے
مَنْ أنْظَرَ مُعْسِراً کَانَ لَهُ بِکُلِّ یَوْمٍ صَدَقَةٌ (ابن ماجہ ۲۴۱۸)
’’جس نے کسی قرض دار کو مہلت دی، اسے اس کے بدلے روزانہ صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔‘‘
سود کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے، اس لیے اگر کسی کے پاس سود کی کچھ رقم ہو تو اسے اپنے ذاتی کام میں استعمال کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ البتہ فقہا نے کہا ہے کہ اس کو اکاؤنٹ میں چھوڑنا مناسب نہیں ہے، بلکہ اسے نکال کر کسی غریب کو دے دینا چاہیے۔ وہ اپنے جس کام میں چاہے، استعمال کرلے۔ حرمت کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ حرمت فی نفسہ کسی چیز میں ہو، جیسے شراب، کہ اس کا استعمال کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے۔ دوسرے حرمت کسی چیز میں فی نفسہ نہ ہو، بلکہ اسے غلط طریقے سے حاصل کرنے کی وجہ سے ہو، جیسے سود کی رقم، کہ اس کا استعمال اس شخص کے لیے تو ناجائز ہوگا جس کے مال پر وہ حاصل ہوئی ہے، البتہ اگر وہ اسے کسی غریب اور ضرورت مند کو دے دے تو وہ اسے اپنے کام میں لا سکتا ہے۔ اسی طرح سودی رقم قرض کے بوجھ تلے دبے کسی شخص کو دی جا سکتی ہے کہ وہ اس کے ذریعے قرض سے نجات پالے۔
کسی مقروض کے ہاتھ میں پہنچنے کے بعد سودی رقم میں حرمت باقی نہیں رہتی۔ اس لیے اس کے واسطے سے یہ رقم قرض دینے والے تک واپس پہنچے تو اس کے لیے اس کا استعمال جائز ہوگا۔ یہ گویا قرض میں دی گئی اسی کی رقم ہے جو اسے واپس ملی ہے۔ اگر اس کے علم میں یہ بات آجائے کہ یہ اصلاً سودی رقم ہے، جو اس تنگ دست اور مقروض شخص کو کہیں سے ملی ہے تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اللہ کے رسول ﷺ کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا۔ ایک باندی، جن کا نام حضرت بریرةؓ تھا، انھیں کہیں سے صدقہ کا گوشت ملا۔ وہ اسے لائیں اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کے گھر آکر اسے پکانے لگیں۔ اللہ کے رسول ﷺ گھر میں داخل ہوئے اور فرمایا’’مجھے بھی کھلاؤ۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا’’یہ صدقہ کا گوشت ہے،جو بریرۃؓ لائی ہیں۔‘‘آپؐ نے فرمایا
ھُوَ لَھَا صَدَقَةٌ وَلَنَا ھَدِیَّةٌ (بخاری۱۴۹۳، مسلم ۱۵۰۴)
’’وہ اس کے لیے صدقہ ہے، لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی غریب کو زکوٰة دی جائے اوروہ اس میں سے کچھ مال کسی اہل ِ ثروت اور صاحب ِ نصاب پر خرچ کردے، یا اس کی دعوت کردے تو اس مال سے فائدہ اٹھانا اُس صاحب ِنصاب شخص کے لیے جائز ہوگا۔ یہی حکم اس سودی رقم کا ہے جو کسی غریب کو دی جائے کہ وہ حسبِ منشا اسے اپنے تصرف میں لا سکتا ہے۔