سورۂ فاتحہ میں آیتوں کی تعداد

قرآن مجید کے آغاز میں سورۂ فاتحہ میں کل کتنی آیتیں ہیں ؟ اس سلسلے میں سعودی عرب سے طبع ہونے والے نسخوں اور ہندوستان میں طبع ہونے والے نسخوں میں فرق نظر آتا ہے۔ اسی کو موضوع بحث بنا کر قادیانی مبلغین مسلم نوجوانوں میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں ۔ لہٰذا آپ سے التماس ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں تشفی بخش جواب مرحمت فرمائیں ۔
جواب

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:
وَلَقَدْ ٰ اتَیْْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْٰانَ الْعَظِیْمَo (الحجر: ۸۷)
’’ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں اور تمھیں قرآن عظیم عطا کیا ہے۔‘‘
صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سورۂ فاتحہ ہی کو ’سبع مثانی‘ قرار دیا ہے۔(۱)
اس بنا پر تمام مسلمانوں کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ سورۂ فاتحہ میں سات آیتیں ہیں ۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ سورۂ فاتحہ کے شروع میں لکھی جانے والی بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم اس کا جزء ہے یا نہیں ؟ جمہور قراء مکہ و کوفہ اسے سورۂ فاتحہ کی ایک آیت مانتے ہیں ، جب کہ قراء مدینہ کے نزدیک یہ آیت تو ہے، مگر سورۂ النمل کی آیت نمبر ۳۰ ہے، سورۂ فاتحہ کے شروع میں درج بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم اس کاجزء نہیں ہے۔ (۲)
جو حضرات بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم کو سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت قرار دیتے ہیں وہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ سے وَلاَ الضَّالِّیْن تک ایک آیت مانتے ہوئے اسے سورہ کی ساتویں آیت کہتے ہیں ، لیکن جو حضرات اسے سورۂ فاتحہ کا جزء نہیں قرار دیتے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کو پہلی آیت کہتے ہیں وہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کو چھٹی آیت اور بعد کے جزء کو ساتویں آیت قرار دیتے ہیں ۔
اس اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ کوئی بھی سورۂ فاتحہ کے کسی جزء کو قرآن حکیم سے خارج نہیں کرتا، صرف نمبر شمار کا مسئلہ ہے۔