سید خاندان کے لیے حرمت ِ زکوٰۃ کی حکمت

زکوٰۃ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سید خاندان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ یعنی اس خاندان کے لوگوں کے لیے صدقہ یا زکوٰۃ لینا حرام ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب

تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے خاندان بنو ہاشم کے لیے زکوٰۃ جائز نہیں ہے۔ آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے :
اِنَّ الصَّدَقَۃَ لاَ تَنْبَغِی لِآلِ مُحَمَّدٍ اِنَّمَا ھِیَ اَوْسَاخُ النَّاسِ۔
(صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب ترک استعمال آل النبی علی الصدقۃ،حدیث:۱۰۷۲)
’’صدقہ (مراد زکوٰۃ) آل محمدؐ کے لیے جائز نہیں ہے یہ لوگوں کا میل کچیل ہے۔‘‘
یہ حرمت بنو ہاشم کے اعزاز و اکرام کی بنا پر ہے۔ الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے:
حرمۃ الصدقۃ علی بنی ھاشم کرامۃ من اللّٰہ لھم و لذریتھم حیث نصروہ ﷺ فی جاھلیتھم و اسلامھم۔
(۱/۱۰۱ )
’’بنو ہاشم کے لیے زکوٰۃکی حرمت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے اور ان کی نسل کے لیے اعزاز و اکرام کی بنا پر ہے۔ اس لیے کہ انھوں نے عہد جاہلیت اور عہد اسلامی میں آں حضرت ﷺ کی نصرت و حمایت کی تھی۔‘‘
بعض فقہاء کا خیال ہے کہ حرمت صرف عہد نبوی کے لیے تھی۔ اب سادات کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ تفصیلات کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔