جواب
خطبۂ نکاح میں قرآن کریم کی جن آیات (النساء:۱، آل عمران: ۱۰۲، الاحزاب: ۷۰-۷۱) کی تلاوت کی جاتی ہے ان میں اِتَّقُوا اللّٰہَ (اللہ سے ڈرو) کی تکرار ہے۔ آیات کے اس انتخاب میں بڑی حکمت پائی جاتی ہے۔ نکاح خوشی کے ان مواقع میں سے ہے، جن میں عموماً اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بتائی ہوئی حدود کا پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ جذبات، خواہشات، ارمان، بیوی بچوں کا اصرار، خاندان اور سماج کا دباؤ، خاندانی وجاہت اور برتر سماجی حیثیت کا اظہار، مال و دولت کی نمود و نمائش اور دیگر محرکات ہوتے ہیں ، جن کی بنا پر آدمی نکاح کے موقعے پر خوب خرچ کرتا ہے اور دوسروں سے خرچ کرواتا ہے۔ اس کے پاس خاطر خواہ مال نہیں ہوتا تو دوسروں سے قرض لیتا ہے اور زندگی بھر اس سے گراں بار رہتا ہے۔
اسلام نکاح کو آسان تر اور بدکاری کو دشوار بنانا چاہتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے:
خَیْرُ النِّکَاحِ اَیْسَرُہٗ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب النکاح، باب فیمن تزوج ولم یسمّ صداقاً حتی مات، حدیث: ۲۱۱۷)
’’بہترین نکاح وہ ہے، جو سب سے زیادہ آسانی سے انجام پائے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ، جو ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے، آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّ اَعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَۃً اَیْسَرُہٗ مُؤْنَۃً۔ (مسند احمد، ۶/۸۲)
’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے، جس میں کم سے کم خرچ ہو۔‘‘
آپ نے جن رسوم کا تذکرہ کیا ہے ان کے علاوہ بھی بے شمار رسوم شادی کے موقعے پر انجام دی جاتی ہیں ۔ ان میں سے بیش تر ہندوانہ تہذیب کی نقّالی میں اختیار کرلی گئی ہیں ۔ اسلامی تہذیب سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مثال کے طور پر جہیز کو لیجیے۔ جہیز کے لمبے چوڑے مطالبے کیے جاتے ہیں ۔ زبان سے نہ کیے جائیں تو بھی اس کی امید رکھی جاتی ہے اور سماج کے دباؤ سے لڑکی والے بھی جہیز دینا ضروری سمجھتے ہیں ۔ یہ سراسر ہندو تہذیب کا اثر ہے۔ ہندو مت میں وراثت میں لڑکی کا کوئی حصہ نہیں ، اس لیے اس کی شادی کے موقعے پر اسے کچھ دے دلا کر رخصت کردیا جاتا ہے۔ اسلام میں شادی کے بعد گھر گرہستی کا سامان فراہم کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ بعض حضرات جہیز کے جواز میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا تھا۔ جب کہ ’جہیز فاطمی‘ کی حقیقت یہ ہے کہ آں حضرت ﷺ کے داماد حضرت علیؓ، جو آپ کے چچا زاد بھائی بھی تھے، بچپن سے آپ کی کفالت میں ، آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ حضرت فاطمہؓ سے شادی کے بعد ان کا الگ گھر بسانے کے لیے آپؐ نے انہی کی زرہ بازار میں فروخت کرواکے گھریلو ضروریات کی کچھ چیزیں منگوائی تھیں ۔ اس طرح حضوؐر نے فاطمہؓ کے باپ کی حیثیت سے کوئی جہیز نہیں دیا بلکہ ہونے والے شوہر کی زرہ فروخت کراکر گھر گرہستی کا سامان مہیا کرایا۔ لڑکے کی شادی میں بڑی تعداد میں باراتیوں کو لے جاکر لڑکی والوں کو زیر بار کیا جاتاہے۔ بسا اوقات خود لڑکی والے نام و نمود کی خاطر بڑی بارات کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ جب کہ مروجہ بارات کا صدر ِ اول میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ عہد ِ نبوی میں بعض ایسی شادیاں بھی ہوئی ہیں ، جن میں رسول اللہ ﷺ کے مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے بھی آپؐ کو شریک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور بعد میں آپؐ کو اس کا علم ہوا۔ ولیمہ کے نام پر بڑے بڑے جشن منائے جاتے ہیں ، مگر اس میں آں حضرت ﷺ کی اس تنبیہ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے:
شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِیْمَۃِ، یُدْعٰی لَھَا الْأَغْنِیَائُ وَ یُتْرَکُ الْفُقَرَائُ۔
(صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب من ترک الدعوۃ فقد عصی اللّٰہ و رسولہ، حدیث: ۵۱۷۷، صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب الأمر باجابۃ الداعی الی دعوۃ، حدیث: ۱۴۳۲)
’’سب سے برا کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے، جس کی دعوت صرف مال داروں کو دی جائے اور غریبوں کو اس میں نہ بلایا جائے۔‘‘
تحریک ِ اسلامی کے وابستگان، جو صحیح دینی شعور رکھتے ہیں ، انھیں اس سلسلے میں مثالی نمونہ پیش کرنا چاہیے، لیکن افسوس کہ ان میں سے بہت سوں کا طرز ِ عمل دوسرے مسلمانوں سے مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی تمام رسوم میں ملوث نظر آتے ہیں اور اس سلسلے میں ناقابل قبول اعذار پیش کرتے ہیں ۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ عموماً رشتہ طے کرنے میں دین داری کو ترجیح نہیں دی جاتی، بلکہ اسے آخری نمبر پر رکھا جاتاہے اور تحریک اسلامی کے وابستگان دوسروں پر اثر انداز نہیں ہوپاتے، بلکہ وہ گھر والوں ، رشتہ داروں اور ہونے والے رشتہ داروں کی تجاویز، مشوروں اور مطالبات کو قبول کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں ۔ لیکن تحریک اسلامی میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، جنھوں نے اپنے بچوں کی شادیاں انتہائی سادگی سے، اسلامی تعلیمات کے مطابق کی ہیں ۔
ان حالات میں قابل مبارک باد ہیں وہ نوجوان، جو نہ صرف صحیح اسلامی تعلیمات سے کماحقہ واقف ہیں ، بلکہ بلاخوف لومۃ لائم ان پر عمل کرنے پر اصرار کرتے ہیں ۔ امید ہے کہ ان کی کوششیں رنگ لائیں گی اور اسلامی معاشرہ غیراسلامی تہذیب کے اثرات سے پاک ہوگا۔