جواب
حدیث میں رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ (۶)روزوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابوایوب انصاری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتّاً مِنْ شَوَّالٍ، کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ (مسلم۶۴۱۱)
’’جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے، اس کے بعد شوال کے چھ روزے مزید رکھے، اس نے گویا ہمیشہ روزہ رکھا۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں اس کی تشریح کر دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:’’ہر نیک کام کا دس گنا اجر ہے۔‘‘ (الانعام۱۶۰) اس اعتبار سے ایک ماہ کے روزوں پر دس(۱۰) ماہ کے روزوں کے برابر اور چھ(۶) دن کے روزوں پر دو ماہ (ساٹھ دن) کے روزوں کے برابر اجرملے گا۔ اس طرح پورے سال کے روزوں کااجرمل گیا۔ (دارمی۱۷۹۶)
ان احادیث کی بنا پر جمہور فقہا نے شوال کے چھ (۶)روزوں کو مسنون قرار دیا ہے۔ جس طرح فرض نمازوں سے قبل اور بعد کی سنتوں کی بہت اہمیت ہے، انھیں ’ سنن ِرواتب‘ کہا جاتا ہے، اسی طرح رمضان کے روزوں سے قبل شعبان کے روزوں اور ان کے بعد شوال کے روزوں کی اہمیت ہے۔
عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اس کے بعد اگلے دن سے روزے مسلسل رکھے جائیں گے، یا ماہ شوال میں کبھی رکھے جا سکتے ہیں ، اس سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع کے نزدیک عید کے بعد چھ(۶) روزے مسلسل رکھنا افضل ہے۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ چاہے مسلسل رکھے جائیں ، یا درمیان میں وقفہ کرکے، دونوں برابر ہے۔ احناف کے نزدیک الگ الگ بغیر تسلسل کے رکھنا بہتر ہے۔ مالکیہ نے عید کے بعد متصل روزے رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ اس معاملے کو ہر فرد کے اوپر چھوڑ دیا کہ وہ اپنی سہولت سے چاہے تو عید کے بعد مسلسل چھ(۶) روزے رکھ لے اور چاہے تو پورے ماہ شوال میں متفرق طور پر رکھ لے۔