جواب
: وراثت کے احکام قرآن مجید میں صراحت سے بیان کردیے گئے ہیں ۔اس کی ایک شق یہ ہے:
فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِيَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ۰ۭ (النساء۱۲)
’’اگر تم صاحب اولادہو تو تمھاری بیویوں کا حصہ آٹھواں ہوگا، بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کردی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کردیا جائے۔‘‘
اس بنا پر اگر کسی شخص کا انتقال ہو اور بیوہ کے علاوہ اس کے دو لڑکے ہوں تو اس کی وراثت میں بیوہ کا حصہ آٹھوں (۵ء۱۲ فی صد) ہوگا۔ بقیہ دونوں لڑکوں کے درمیان برابر تقسیم ہوگا۔ امید ہے کہ حکومت کی جانب سے ملنے والی رقم اسی طرح تقسیم کی گئی ہوگی۔ کمپنی سے ملنے والی زائد رقم سے جواپارٹمنٹس بنوائے گئے ہیں ۔ ان میں اور ان سے حاصل ہونے والی کرایے کی رقم میں بھی اسی تناسب سے حصہ لگے گا۔
شوہر نے اپنی زندگی میں خریدے گئے فلیٹ کا رجسٹریشن بیوی کے نام سے کرایا ہو تو وہی اس کی مالک سمجھی جائے گی، الاّ یہ کہ شوہر نے صراحت کردی ہو کہ اس کا مالک وہ خود ہے، محض بعض ضوابط کی تکمیل یا بعض سہولیات کے حصول کے لیے اس نے رجسٹریشن کے وقت بیوی کا نام لکھوادیا ہے۔
یتیم بچوں کی کفالت چاہے ان کی ماں کر رہی ہو یا کوئی اور رشتے دار، اس کی ہرممکن کوشش ہونی چاہیے کہ ان کا مال ضائع نہ ہو اور ان کے کام آئے۔ اگر وہ صاحب ِحیثیت ہو تو بہتر ہے کہ بچوں کے مال میں سے اپنے اوپر کچھ نہ خرچ کرے، لیکن اگرضرورت مند ہوتو ان کی کفالت اور خدمت کے معاوضے کے طور پر کچھ رقم وصول کرنا اس کے لیے جائز ہوگا، البتہ یہ معاوضہ متعیّن ہونا چاہیے اور اس کا حساب رکھنا چاہیے، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ بچوں کی کفالت کرنے والا بے دردی سے ان کا مال اڑا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بھی قرآن مجید نے واضح طور پر رہ نمائی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَاْكُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ يَّكْبَرُوْا۰ۭ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ۰ۚ وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۭ (النساء۶)
’’ایسا کبھی نہ کرنا کہ حدِّانصاف سے تجاوز کر کے اس خوف سے ان کے مال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے۔ یتیم کا جو سرپر ست مال دار ہو وہ پرہیزگاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے۔‘‘
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے:
’’یعنی اپنا حق الخدمت اس حد تک لے کہ ہر غیرجانب دار معقول آدمی اس کو مناسب تسلیم کرے ، نیز یہ کہ جو کچھ بھی حق الخدمت وہ لے، چوری چھپے نہ لے، بلکہ علانیہ متعین کرکے لے اور اس کا حساب رکھے۔ ‘‘
(تفہیم القرآن ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی،۲۰۱۵، ۱؍۳۲۴)
اور مولانا امین احسن اصلاحی ؒفرماتے ہیں :
’’سرپرست اگر مستغنی آدمی ہوتو اس کو یتیم کے مال میں کچھ لینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر غریب ہو تو دستور کے مطابق اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ ’دستور کے مطابق ‘سے مراد ہے ذمہ داریوں کی نوعیت ،جائیداد کی حیثیت ، مقامی حالات اور سرپرست کے معیارِ زندگی کے اعتبار سے وہ فائدہ اٹھانا جو معقولیت کے حدود کے اندر ہو، یہ نوعیت نہ ہو کہ ہر معقول آدمی پر یہ اثرپڑے کہ یتیم کے بالغ ہوجانے کے اندیشے سے اسراف اور جلدبازی کر کے یتیم کی جائداد ہضم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ‘‘
(تدبرقرآن، تاج کمپنی دہلی، ۲۰۰۹، ۲؍۲۵۵)