شوہر کی لاتعلّقی پر عورت کیا کرے؟

, ,

میرے تین بچے ہیں۔ میرے شوہر گزشتہ تین برس سے مجھ سے لا تعلق سے ہیں۔ وہ رات بھر موبائل میں مصروف رہتے ہیں، اور میری طرف توجہ نہیں دیتے۔ میں جانتی ہوں، وہ دوسری خواتین سے باتیں کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا بھی ہے، لیکن بچوں کی وجہ سے خاموش ہوں۔

عالمہ باجی نے کہا ہے کہ جس طرح کوئی مرد اپنی بیوی کی بدکاری کے باوجود اس سے رشتہ نبھائے وہ دیّوث ہے، جس پر جنت کے دروازے بند ہوں گے، یہی حکم عورت کے لیے بھی ہے۔ پھر کیا مجھ کو اپنے شوہر سے علیٰحدگی لے لینی چاہیے؟

جواب

زوجین سے مطلوب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں، حقوق ادا کریں، محبت و مودّت سے پیش آئیں، جسمانی اور روحانی سکون دیں اور مل جل کر بچوں کی پرورش کریں۔ قرآن مجید میں اسے اللہ کی نشانی قرار دیا گیا ہے:

 

وَمِنْ اٰيٰتِهٓ ٖ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُـوٓا اِلَيْـهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّّرَحْـمَةً ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ(الروم:21)

’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ ‘‘

قرآن مجید میں مردوں اور عورتوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور ان کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاتَّقُوا اللَهَ الَّذِي تَسَآءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا(النساء:1)

’’ اور اللہ سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو اور رشتوں کو پامال کرنے سے ڈرو۔‘‘

اس سلسلے میں مردوں کو خاص طور سے حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کریں، ان کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئیں اور اگر ان سے کچھ کوتاہیاں سرزد ہوں تو ان سے صرفِ نظر کریں اور ان کی دل جوئی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں :

وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَـعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّيَجْعَلَ اللّهُ فِيْهِ خَيْـرًا كَثِيْـرًا(النساء:19)

’’اور بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘

جو لوگ بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتے، ان کے لیے زندگی کی آسائشیں فراہم نہیں کرتے اور دوسری عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات استوار کرتے ہیں وہ بہت بڑے جرم اور گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہیں اس پر اللہ کی پکڑ اور سزا سے ڈرنا چاہیے۔

اگر کسی عورت کو احساس ہوا کہ اس کا شوہر اس کی طرف التفات نہیں کر رہا ہے، اس کے حقوق ادا نہیں کر رہا ہے اور اس کے بجائے دوسری عورتوں میں زیادہ دل چسپی لے رہا ہے تو اسے ضرور فکر مند ہونا چاہیے۔ شوہر سے یہ دریافت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی بے التفاتی کی وجہ کیا ہے؟ اگر شوہر کی طرف سے کچھ شکایتیں سننے کو ملیں تو انہیں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن کی تعلیم تو یہ ہے کہ اگر ازدواجی تعلقات میں خوش گواری کو بحال کرنے کے لیے عورت کو اپنے کچھ حقوق سے دست بردار ہونا پڑے تو اسے اس کی قربانی دینے پر آمادہ ہوجانا چاہیے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاِنِ امْرَاَ ةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْـرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْـهِمَآ اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَـهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْـرٌ(النساء:128)

’’اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بد سلوکی یا بے رخی کا اندیشہ ہو توکوئی مضائقہ نہیں اگر میاں بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر)آپس میں صلح کرلیں۔ صلح بہر حال بہتر ہے۔‘‘’’اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بد سلوکی یا بے رخی کا اندیشہ ہو توکوئی مضائقہ نہیں اگر میاں بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر)آپس میں صلح کرلیں۔ صلح بہر حال بہتر ہے۔‘‘شوہر یا بیوی کو اپنے جوڑے کی کسی ناشائستہ حرکت کا علم ہو تو فوراً علیٰحدگی کی بات نہیں سوچنی چاہیے۔ اگر اپنی کوشش کام یاب نہ ہو تو خاندان کے بڑوں کو شامل کرنا چاہیے اور ان کے ذریعے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ کسی صورت میں اصلاح نہ ہو رہی ہو، ایک فریق اپنی بد عملی پر ڈٹا ہوا ہو اور دوسرے کو اس کے ساتھ رہنے میں مستقل شدید کوفت رہتی ہو  تب آخری مرحلے میں علیٰحدگی پر غور کیا جاسکتا ہے۔ عورت کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ بچوں کی محبت اس کے پیروں میں بیڑیاں ڈالے رہتی ہے۔ علیٰحدگی کے بعد اس کی گزر اوقات کیسے ہوگی؟ موجودہ دور میں یہ بھی اہم اور گمبھیر مسئلہ بن گیا ہے۔ اس لیے عورت کو بہت سوچ سمجھ کر علیٰحدگی کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث سے ہمیں رہ نمائی ملتی ہے:ایک شخص رسول اللہ ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی بیوی کی شکایت کی: انّ امرأتی لا تردّ ید لامسٍ۔ (میری بیوی کسی چھونے والے کا ہاتھ نہیں جھٹکتی۔) آپؐ نے فرمایا: اسے طلاق دے دو۔ اس نے کہا: مجھے اس سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تو اسے باقی رکھو۔ (ابو داؤد:2049، نسائی:3229)اس حدیث میں مذکور شوہر کی شکایت بیوی کی بدکاری سے متعلق نہ تھی، بلکہ یہ کنایہ ہے اس بات سے کہ بیوی نامحرم مردوں سے دوٗر اور الگ تھلگ نہیں رہتی، بلکہ ان سے بات چیت کرنے میں اسے کچھ تکلف نہیں ہوتا۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی یہ حرکت پسندیدہ نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود اس سے ازدواجی تعلق باقی رکھا جا سکتا ہے۔اسی طرح شوہر کا بیوی سے اعراض برتنا، اس کے ازدواجی حقوق ادا نہ کرنا، ساتھ ہی دوسری عورتوں میں دل چسپی لینا دینی اعتبار سے ناپسندیدہ ہے، لیکن اس صورت میں بیوی کے لیے ضروری نہیں کہ وہ لازماً شوہر سے علیٰحدگی اختیار کرلے۔ اگر وہ بچوں کی خاطر یا کسی اور سبب سے خاموشی اختیار کرتی ہے اور رشتے کو باقی رکھتی ہے تو اسے اس کا اختیار ہے۔ ہر مرد اور عورت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تنہا جواب دہ ہوں گے۔ شوہر دین دار اور بیوی بے دین ہو تو بیوی کی بے دینی شوہر کو نقصان نہ پہنچائے گی اور بیوی دین دار اور شوہر بے دین اور گناہ گار ہو تو بیوی شوہر کی بے دینی کے وبال سے محفوط رہے گی۔

March 2025