جواب
حج اس پر فرض ہے، جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاًط
(آل عمران:۹۷)
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔‘‘
استطاعت سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس اپنی گھریلو ضروریات کے علاوہ اتنا مال ہو، جو اس کے مصارف ِ سفر کے لیے کافی ہو اور کوئی ذریعۂ سفر بھی فراہم ہو۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! حج کب فرض ہوتا ہے؟ فرمایا: الزَّادُ وَالرَّاحِلَۃُ ’’جب زادِ راہ اور سواری کا انتظام ہو۔‘‘ (جامع ترمذی، ابواب الحج، باب ماجاء فی ایجاب الحج بالزاد والراحلۃ، حدیث نمبر:۸۱۳اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن اور علاّمہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے)
عورت کے لیے استطاعت کے مفہوم میں ایک چیز اور شامل ہے کہ حج کے سفر میں اس کے ساتھ شوہر یا کوئی محرم ہو۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مال دار ہونے کے باوجود عورت پر حج فرض نہیں ہے۔
یہ تو فرضیت ِ حج کا معاملہ ہے۔ حج دوسرے کے مصارف پر کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً: بیٹے پیسوں کا انتظام کرکے ماں باپ کو حج پر بھیجیں ، یا شوہر اپنے ساتھ بیوی کو بھی لے جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔