جواب
ایک شخص اچانک غائب ہو گیا ہے، یا اسے کسی نے غائب کر دیا ہے، دونوں صورتوں میں عملاً کوئی فرق نہیں ہے۔عورت شوہر سے محروم ہو گئی ہے۔ اب دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ وہ صبر کرے ، جس طرح وہ عورت صبر کرتی ہے جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہو اور دوسری شادی نہ کرے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ اس کا نکاح ہو۔ شریعت نے ایسی عورت کو دوسرے نکاح کا حق دیا ہے۔ لیکن یہ حق اسے اس طرح حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہے کسی دوسرے سے نکاح کر لے، یا اس کا نکاح کروا دیا جائے،بلکہ شریعت یہ کہتی ہے کہ پہلا نکاح ختم کرنا ضروری ہے۔کوئی نکاح اسی صورت میں ختم ہو سکتا ہے جب شوہر خود طلاق دے دے ، یا بیوی خلع لے لے۔ دونوں صورتوں میں شوہر کی موجودگی ضروری ہے۔ شوہر موجود نہیں ہے تو عورت دار القضاء میں کیس کرے گی۔قاضی تحقیق کی جتنی صورتیں اختیار کر سکتا ہے، کرے گا۔ جب شوہر کا پتا نہیں چلے گا تو وہ اس نکاح کو فسخ کر ادے گا، اس کے بعد عورت دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔تحقیق و انتظار کی مدت امام مالکؒ کے یہاں چار سال ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ مدت بہت طویل (اسّی سال) ہے، لیکن بعد کے فقہائے احناف نے امام مالکؒ کی رائے کو اختیار کر لیا ہے۔ عام طور سے دارالقضاء میں ہوتا یہ ہے کہ جب عورت کی طرف سے شوہر کے مفقود الخبر ہونے کا کیس دائرکیا جاتا ہے تو قاضی شوہر کے پتے پر خط بھیجتا ہے۔ کوئی جواب نہیں آتا تو دوسری بارخط بھیجتا ہے۔ پھر بھی جواب نہیں آتاتو تیسری مرتبہ شوہر کے قریبی رشتہ داروں میں سے کسی کے پتے پر خط بھیجا جاتا ہے۔ پھر بھی کوئی سراغ نہیں لگتا اور تحقیق کی تمام ممکنہ صورتیں اختیار کر لی جاتی ہیں تو قاضی نکاح کے فسخ کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ عورت دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔