میری دو بیٹیاں ہیں، 15اور18سال کی۔ میرے شوہر پہلے اچھے انسان تھے، اب اچانک ان کی عادتیں بدلنے لگی ہیں۔ وہ زنانہ مردانہ ہارمونز کنٹرول کرنے کی ٹیبلیٹ لینے لگے ہیں، اس کے نتیجے میں ان میں زنانہ تبدیلی ہونے لگی ہے۔ میری کسی بات کو سنتے ہیں نہ جواب دیتے ہیں۔ میں بہت فکر مند ہوں کہ ہمارا کیا ہوگا؟ کیا شرعی اعتبار سے ایسے مرد کے ساتھ مجھے رہنا چاہیے،جسے ان معاملات میں شریعت کا شعور تک نہ ہو۔ میں ایک دین دار لڑکی ہوں، لیکن بچیوں کی عزت کے لیے خوف زدہ بھی ہوں۔ میری رہ نمائی فرمائیں۔
جواب
اللہ تعالیٰ نے دو جنسیں بنائی ہیں : مرد اور عورت۔ دونوں کے اجتماع و اتصال سے انسانی نسل چلتی ہے۔ اسی مقصد سے دونوں کے درمیان صنفی کشش رکھی گئی ہے۔ اسلام نے جنسی تعلق کو نکاح کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کے درمیان جنسی تعلق قابلِ تعزیر جرم ہے۔ صرف دو جنسیں ہونے کا ذکر قرآن مجید میں صراحت سے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَأَنَّه‘ۥ خَلَقَ ٱلزَّوْجَيْنِ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنْثٰى(سورۃ النجم: 45 )
(اور یہ کہ اس نے نَر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا۔)
کچھ ایسے انسان پائے جاتے ہیں، جن میں جنسی معاملے میں جسمانی یا نفسیاتی اعتبار سے کچھ نقص ہوتا ہے، مثلا ًکسی میں جنسی اعضاء (Sexual Organs) نہیں ہوتے، یا مردانہ اور زمانہ دونوں اعضا ءہوتے ہیں۔ بعض جسمانی اعتبار سے تو ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں، لیکن مرد مرد کی جانب صنفی میلان محسوس کرتا ہے اور عورت عورت کی جانب، یا ہر ایک کا میلان دونوں صنفوں کی جانب ہوتا ہے، یا اس طرح کا کوئی اور جنسی انحراف پایا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں منحرف جنسی رویّے رکھنے والے تمام افراد کا ایک گروپ بنا دیا گیا ہے، جو LGBTQ+ کہلاتا ہے۔ یہ لوگ بین الاقوامی سطح پر سرگرم ہیں اور دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ان کی انجمنیں قائم ہیں، جو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ منحرف جنسی رویّے نہیں، بلکہ طبعی مظہر (Normal Phenomenon) ہے۔ یہ رویے رکھنے والوں کے لیے’’تیسری جنس‘‘ (Third Gender) کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے انسان یا تو مرد ہوگا یا عورت، تیسری جنس کا کوئی وجود نہیں۔ جسمانی یا نفسیاتی طور سے جنسی معاملے میں کسی انسان میں کوئی کمی ہو تو اسلام اسے مرض تصور کرتا ہے اور اس کے علاج کا مشورہ دیتا ہے۔
جنسی معاملے میں پائی جانے والی نفسیاتی بیماری کو Gender Dysphoria کا نام دیا گیا ہے۔اس میں مبتلا افراد کے اعضائے جسم میں کوئی نقص نہیں ہوتا، لیکن نفسیاتی طور پر وہ سخت الجھن کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ خود کو اس صنف سے مختلف سمجھنے لگتے ہیں، جو ان کی اصل صنف ہوتی ہے۔ لڑکا خود کو لڑکی سمجھنے لگتا ہے اور لڑکی خود کو لڑکا۔ LGBT کے عَلَم بردار اس کو معمول کا رویہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کو اپنے اندرونی احساسات کے مطابق اپنی جنس تبدیل کرا لینے کا حق ہے۔ اس رویّے کے زیرِ اثر لوگ اپنی جنس تبدیل کرنے کے طریقے اختیار کرنے لگتے ہیں۔ وہ جنسی رسیلات (Sexual Hormones) کی گولیاں استعمال کرتے ہیں اور اگلے مرحلے میں آپریشن کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کروا لیتے ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے اندرونی احساسات کی بنا پر اپنی جنس تبدیل کرنے کی کوشش کرے،بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی جنس اور اس کے عطا کردہ اعضاء کے مطابق اپنے احساسات کو ڈھالنے کی کوشش کرے۔جیسے دیگر نفسیاتی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے، اسی طرح اس بیماری کا بھی علاج ہے۔ اس کے لیے کسی ماہر نفسیات معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔
یہ جنسی انحراف کسی شخص میں شادی سے قبل پایا جا سکتا ہے اور کچھ عرصہ ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد بھی۔ کوئی شادی شدہ شخص اس بیماری کا شکار ہو تو اس کے گھر والوں کو اس کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ بیوی بھی اسے سمجھائے بجھائے۔ اللہ تعالی کی تخلیق پر راضی بہ رضا رہنے کی تلقین کرے۔ یہ جاننے کی بھی کوشش کی جائے کہ جنسی رویّے میں تبدیلی کا سبب کیا ہے؟ بسا اوقات ایک شخصLGBT گینگ کے رابطے میں ا ٓکر اور ان کی فکر سے متاثر ہو کر ایسی حرکت کرنے لگتا ہے۔
بہرحال، عورت ایسے شوہر کے ساتھ جو اس منحرف جنسی رویے کا شکار ہو گیا ہو، رہ سکتی ہے۔ لیکن اگر اس کی جنسی ضروریات پوری نہ ہو پا رہی ہوں، جس کی وجہ سے خود اس کے معصیت میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ خلع یافسخِ نکاح کے ذریعے اس سے علیٰحدگی حاصل کرنے کا حق رکھتی ہے۔
November 2024