شوہر کے ناجائز مطالبات بیوی کیا کرے؟

,

میرے شوہرکی جانب سے ناجائزمطالبات رہتے ہیں۔ چوں کہ میں تھوڑا بہت دینی علم رکھتی ہوں، اس لیے انکار کردیتی ہوں۔

جیسے سود پر قرض لینا، یا ان کے غیر مسلم دوستوں کے سامنے اسٹائلش کپڑے پہننا۔ میرے انکار پر وہ مجھے مارتے ہیں، جس کے برے اثرات میرے بچوں پرپڑتے۔ ان باتوں پرمیں کئی مرتبہ مار کھا چکی ہوں۔ میری رہنمائی فرمائیے، میں کیا کروں ؟

جواب

زوجین سے مطلوب رویّہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پیار ومحبت سے پیش آئیں، اچھا برتاؤ کریں، دین پرچلنے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں، کسی سے کوتاہی سرزد ہو جائےتواسے نظرانداز کریں اورسمجھانے بجھانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ چوں کہ شوہرکو گھر کا سربراہ بنایا گیا ہے، اس لیے اس کی ذمے داری بڑھ کر ہے۔ اسے حکم دیا گیاہے کہ بیوی بچوں کا خیال رکھے،انہیں دین کے راستے پرچلانے اورجہنم سے بچانے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے

يٰاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا قُوا اَنفُسَكُم وَاَهلِيكُم نَارًا وَّقُودُهَا النَّاسُ وَالحِجَارَةُ (التحریم : 6)

ترجمہ: اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس اگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔

حدیث میں اس جوڑے کے حق میں دعا کی گئی ہے جو رات کی تنہائیوں میں اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ بیوی پہلے اٹھتی ہے تو شوہرکو جگاتی ہے اور شوہر کی آنکھ پہلے کُھل جاتی ہے تو وہ بیوی کو اٹھاتا ہے اور دونوں مل کر نماز ادا کرتے ہیں۔ (ابو داؤد۱۳۰۸:، نسائی۱۶۱۰:، ابن ماجہ:۱۳۳۶ )

اس کے مقابلے میں اگر زوجین میں سے کوئی خود دینی احکام پر عمل نہ کرے اور دوسرا عمل کرنا چاہے تو اسے روکے اور اس کی سرزنش کرے۔ اُس کو قرآن میں دشمن کہا گیا اور اس کی روش سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے- اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

يٰاَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اِنَّ مِن اَزوَاجِكُم وَاَولَادِكُم عَدُوًّا لَّكُم فَاحذَرُوهم (التغابن: ۱۴)

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے جوڑوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔

نیک بیوی کی پہچان یہ ہے کہ وہ اچھے کاموں میں شوہر کی اطاعت کرے اور اس کا بھرپور تعاون کرے۔ قرآن مجید میں ارشادہے :

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ (النساء: ۳۴)

ترجمہ: نیک عورتیں اطاعت شعار ہوتی ہیں۔ اور اگر شوہر اس سے کوئی غلط کام کروانا چاہے تو اس کی بات نہ مانے اور نرمی کے ساتھ اس کو سمجھانے کی کوشش کرے۔

بعض شوہر سخت مزاج ہوتے ہیں۔ وہ بیوی سے مکمل اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ان کے ہر حکم پر بیوی’’ آمنّا و صدّقنا ‘‘کہے اور بے چوں وچرا ان کا کہنا مانے، چاہے ان کی بات بالکل غلط اور دینی و شرعی اعتبار سے گناہ کی ہو۔ اگر بیوی ان کی کسی بات سے اختلاف کرے اور غیر شرعی کہہ کر اس پر عمل آوری سے انکار کر دے تو ان کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں، ان کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگتاہے،یہاں تک کہ وہ اس پر ہاتھ اٹھانے سے بھی باز نہیں آتے اور اسے جسمانی اذیت دینا اپنی مردانگی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اللہ کے رسول ﷺ نے سخت الفاظ میں سرزنش کی ہے اور اسے غیر شریفانہ عمل بتایا ہے۔ حضرت لقیط بن صبرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے بیوی کو مارنے پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :

لا تَضرِبنَّ ظَعِینَتَکَ ضَربَکَ اُمَیَّتَکَ (ابو داؤد:۱۲۴)

’’اپنی گھر والی کو اس طرح ہرگز نہ مارو جس طرح اپنی لونڈی کو مارتے ہو۔ ‘‘

حضرت ایاس بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ بعض صحابہ کریم اضوان اللہ عنہم اجمعین نے اپنی بیویوں کی پٹائی کر دی۔ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے گھروں میں اکٹھا ہوکر اپنے شوہروں کی شکایت کرنے لگیں۔ آپ تک شکایت پہنچی تو آپ نے فرمایا :

 

لقَد طاف بآلِ محمدٍ نساءٌ کثیرٌ یَشکونَ ازواجَھُنَّ، لَیسَ اُؤلئکَ بِخِیارِکُم ( ابو داؤد۲۱۴۶:، ابن ماجہ: ۱۹۸۵)

’’ محمد(ﷺ ) کے گھر والوں کے پاس بہت سی عورتیں آئیں، جو اپنے شوہروں کی شکایت کر رہی ہیں۔ وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ ‘‘

جن بچوں کے سامنے ان کے باپ ان کی ماؤں کو مارتے ہیں، ان پر بہت برا اثرپڑتا ہے۔ وہ نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں اپنے باپوں سے نفرت بیٹھ جاتی ہے، جس کا بسا اوقات بڑے ہونے پر ان کی جانب سے اظہار بھی ہوتا ہے۔ اس لیے باپوں کو خود اپنے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسے نازیبا عمل سے بچنا چاہیے۔

جو عورتیں اپنے شوہروں کی جانب سے ایسے رویے سے دوچار ہوں، انہیں صبر کرناچاہیے۔ ایک طرف وہ شوہروں کے کہنے پر غلط کاموں کا ارتکاب نہ کریں، نرمی کے ساتھ انہیں سمجھائیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی معصیت کا ارتکاب کرکے اپنی آخرت بربادنہ کریں۔ دوسری طرف اگرشوہرڈانٹ ڈپٹ کریں یا ان پر ہاتھ اٹھائیں تو خاموشی اختیار کریں اور کسی ردّ عمل کا شکار نہ ہوں۔ ضرورت محسوس کریں تو شوہروں کے یا اپنے خاندان کے بزرگوں کو اعتماد میں لیں اور ان کے ذریعے شوہروں پردباؤ دلوائیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت زندگی بھر شوہر کی غلط باتوں اور غلط کاموں میں اس کا ساتھ دیتی رہے، یا مخالفت کرنے پر اس کے مظالم سہتی رہے اور اُف نہ کرے۔ ظلم برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر عورت کی قوّتِ برداشت جواب دے جائے تو وہ خلع کا مطالبہ کرکے یا قاضی کے ذریعے نکاح فسق کروا کے گلو خلاصی حاصل کر سکتی ہے، لیکن اسے آخری چارۂ کار کے طور پر ہی استعمال کرنا چاہیے اور اس کا اقدام اسی وقت کرنا چاہیے جب دوسرے تمام دروازے بند ہو گئے ہوں۔

May 2025