جواب
کسی واقعے کے بارے میں پڑھ کر یا سن کر انسان پر جو تاثر قائم ہوتا ہے، اس سے کہیں زیادہ اثر وہ اس وقت لیتا ہے جب اسکرین پر اسے رونما ہوتے ہوئے اور اس کے کرداروں کو متحرک اور چلتا پھرتا دیکھتا ہے۔ اسی بنا پر تعلیمی اور تفریحی مقاصد سے ٹیلی ویژن کا بہت بڑے پیمانے پر استعمال ہونے لگا ہے اور تاریخی واقعات کو اسٹیج کرکے ویڈیو کے ذریعے دکھایا جانے لگا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا عہد نبوی کے واقعات کو بھی اسی طرح ٹی وی اور ویڈیو کے ذریعے دکھایا جاسکتا ہے اور کیا اللہ کے رسول ﷺ اور صحابۂ کرامؓ کے کردار کو ان پر پیش کیا جاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں تمام علماء کا اس بات پر اتفاق و اجماع ہے کہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ اور دیگر پیغمبروں کے کرداروں کی اداکاری جائز نہیں ، اس لیے کہ یہ ان کے احترام و عقیدت کے منافی ہے۔ بعض علماء پیغمبر وں کے ساتھ خلفائے راشدین اور اکابر صحابہؓ کی اداکاری کو ناجائز کہتے ہیں ، لیکن دیگر صحابہ کے کرداروں کو اسٹیج پر پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، جب کہ بعض دیگر علماء کسی بھی صحابی کے کردار کی اداکاری کو جائز نہیں قرار دیتے۔
کچھ عرصہ قبل مصر میں اس موضوع پر کافی مباحثہ ہوچکا ہے۔ وہاں کے ادارہ مجمع البحوث الاسلامیہ نے عشرۂ مبشرہ (وہ دس صحابہ جنھیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی) کے علاوہ باقی صحابۂ کرام کا تمثیلی کردار پیش کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن جامعۂ ازہر کے علماء کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ ان کے نزذیک اس معاملے میں صحابۂ کرام کے درمیان تفریق کرنا درست نہیں ۔ کسی بھی صحابی یا صحابیہ کا تمثیلی کردار پیش کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ایسا کرنے سے ان کی عظمت اور احترام میں کمی آتی ہے اور ان کی پاکیزہ شخصیات مجروح ہوتی ہیں ۔ (کویت کے ہفت روزہ المجتمع نے اس مباحثے کو اپنے شماروں : ۱۶۰۰، ۱۶۰۱، ۱۹- ۲۶؍ ربیع الاول ۱۴۲۵ھ، ۸- ۱۵؍مئی ۲۰۰۴ء میں شائع کیا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ، جولائی- ستمبر ۲۰۰۵ء میں ’صحابۂ کرام کی اداکاری- شریعت کی نظر میں ‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔)
راقم سطور کی رائے میں حضور ﷺ کے ساتھ صحابۂ کرامؓ کے کرداروں کی ادا کاری بھی مناسب نہیں ہے۔