صدقۂ فطر

صدقۂ فطر کی کیااہمیت ہے؟یہ کب ادا کیا جانا چاہیے؟

جواب

صدقۂ فطر کی ادائیگی کی بہت تاکید کی گئی ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓفرماتے ہیں

فَرَضَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ زَکَاۃَ الۡفِطۡرِ طُہۡرَۃً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغۡوِ وَالرَّفَثِ وَطُعۡمَۃً لِلۡمَسَاکِینِ۔

(ابو دائود۱۶۰۹، ابن ماجۃ۱۸۲۷)

’’رسول اللہ ﷺ نے زکوۃ الفطر کو فرض قرار دیا ہے۔ یہ روزہ دار کی لغو باتوں اور لغو کاموں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے مسکین لوگوں کو کچھ کھانے کو مل جاتا ہے۔‘‘

اس حدیث سے صدقۂ فطر کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور اس کا مقصد بھی عیاں ہوجاتا ہے۔  صدقۂ فطر سے اصلاً غریبوں کی مدد مقصود ہے۔یوں تو رمضان المبارک شروع ہوتے ہی صدقۂ فطر نکالا جاسکتا ہے، لیکن اسے نصف رمضان کے بعد نکالنا چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓاور بعض دیگر صحابۂ کرام کا معمول تھا کہ وہ عید الفطر سے ایک دو روز قبل اسے نکالا کرتے تھے۔

صدقۂ فطر کا وجوب عید الفطر کا چاند نکلتے ہی ہوجاتا ہے اور اس کا آخری وقت عید کی نماز ہے۔ نماز سے قبل لازماً اسے ادا کردیا جانا چاہیے، ورنہ اس کی حیثیت عام صدقات کی ہوجاتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے

مَنۡ أَدَّاھَا قَبۡلَ الصَّلَاۃِ فَھِیَ زَکَاۃٌ مَقۡبُولَۃٌ، وَمَنۡ أَدَّاھَا بَعۡدَ الصَّلَاۃِ فَھِیَ صَدَقَۃٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ۔(ابودائود۱۶۰۹، ابن ماجۃ۱۸۲۷)

’’جس نے (عید الفطر کی) نماز سے قبل(صدقۂ فطر) ادا کردیا وہ بارگاہِ الٰہی میں مقبول ٹھہرے گا اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو اس کی حیثیت عام صدقات کی ہوجائے گی۔‘‘