صدقۂ فطر کس شکل میں ادا کرنا بہتر ہے؟

صدقۂ فطر کو اناج کی شکل میں ادا کیا جانا بہتر ہے یا نقد؟

جواب

ماہ رمضان المبارک کے آخر میں صدقۂ فطر کی ادائیگی واجب ہے۔

حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا ہے

فَرَضَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ زَکَاۃَ الفِطرِ طُھرَۃً لِلصَّائِمِ مِنَ الَّلغوِ وَالرَّفَثِ وَطُعمَةً لِلمَسَاکِینَ                         (ابوداود۱۶۰۹)

’’رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر کو لازم کیا ہے۔ اس سے روزہ دار کا روزہ لغو باتوں اور نامناسب کاموں سے پاک ہوجاتا ہے اور غریبوں کو کچھ کھانے کو مل جاتاہے۔‘‘

احادیث میں صدقۂ فطر کے طور پر کھانے کی مختلف چیزوں کو نکالنے کا بیان ملتا ہے۔

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے

اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ فَرَضَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ۔                                     (بخاری۱۵۰۴)

’’رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطرمیں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو نکالنے کا حکم دیاہے۔‘‘

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں

’’ہم صدقۂ فطرکے طورپر ایک صاع غلہ(یعنی گیہوں)، یا ایک صاع جَو، یا ایک صاع کھجور، یا ایک صاع پنیر، یا ایک صاع کشمش نکالا کرتے تھے۔‘‘   (بخاری۱۵۰۶)

صدقۂ فطر کو مذکورہ بالا غذائی اجناس کی شکل میں ادا کیا جائے یا نقدی کی صورت میں؟ اس سلسلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور امام اسحاق بن راہویہ ؒ  فرماتے ہیں کہ اسے اجناس کی شکل میں ادا کیا جائے گا۔ نقدی کی شکل میں اس کی ادائیگی جائز نہیں ہے۔ یہ حضرات یہ دلیل دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر میں انہی اجناس کو ادا کیا ہے اور دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے اس کی پابندی ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ صدقۂ فطر نقدی کی شکل میں بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ صدقۂ فطر کا مقصد یہ ہے کہ فقرا ومساکین کو عید الفطر کے موقع پر کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، جیسا کہ حدیث میں ہے

اَغنُوھُم فِی ھٰذَا الیَومِ  (سنن دارقطنی۳؍۸۹)

’’انھیں آج کے دن مانگنے سے بے نیاز کردو۔‘‘

تابعین کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدقۂ فطر غذائی اجناس کے بجائے نقد رقم میں ادا کرنے کو جائز سمجھتے تھے۔ حضرت حسن بصریؒ کا قول ہے

لا بأس أن تُعطیٰ الدَرَاھِمُ فِی صَدَقَةِ الفِطرِ

(مصنف ابن ابی شیبة۲۰؍۳۹۸)

’’صدقۂ فطر کی ادائیگی درہم سے کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘

ابواسحاقؒ کہتے ہیں

أدرَکتُھُم وَھُم یُؤدُّون فِی صَدَقَةِ رَمَضَانَ الدَّراھِمَ بِقِیمَةِ الطَّعَامِ                                 (مصنف ابن ابی شیبة۲؍۳۹۸)

’’میں نے ان کا زمانہ پایا ہے جب کہ وہ حضرات صدقۂ فطرمیں غذائی اجناس کی قیمت اداکرتے تھے۔‘‘

موجودہ دور کے نام ور فقہا نے نقدی سے صدقۂ فطر ادا کرنے کو نہ صرف جائز، بلکہ موجودہ حالات میں بہتر قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے لکھا ہے

’’یہ بات غوروفکر کے بعد مجھ پر واضح ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے غذائی اجناس سے صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دو وجوہ سے دیا تھا پہلی وجہ یہ ہے کہ غذائی اجناس سے صدقۂ فطر ادا کرنے میں لوگوں کو آسانی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کرنسی کی قیمتیں مختلف ہوتی رہتی ہیں اور اس کی قیمتِ خرید ہرزمانے کے اعتبار سے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس غلّے کا ایک صاع انسانی ضرورت کو پوراکرتا ہے۔ توجس طرح اُس دور میں ان غذائی اجناس سے صدقۂ فطر ادا کرنے میں دینے والے کے لیے آسانی تھی اور لینے والے کے لیے زیادہ فائدہ تھا، اسی طرح آج غذائی اجناس کے بجائے قیمت سے صدقۂ فطر ادا کرنے میں دینے والے کے لیے آسانی ہے اور لینے والے کے لیے زیادہ فائدہ ہے۔‘‘                            (فقہ الزکاة)

سابق شیخ الازہر شیخ محمود شلتوتؒ فرماتے ہیں

’’قیمت سے صدقۂ فطر ادا کرنا کافی ہے، کیوں کہ بسا اوقات قیمت فقیر کے لیے زیادہ باعثِ رحمت اور فائدہ مند ہوتی ہے اور اس میں فقیر کی مختلف ضروریات کو پوراکرنے کی رعایت بھی ہے، جن کو فقیر خود دوسروں کی بہ نسبت اچھی طرح جانتا ہے۔ لہٰذا قیمت کو حاجت دوٗر کرنے میں زیادہ دخل ہے۔‘‘

عہد نبوی اور ابتدائی ادوار میں غذائی اشیا کا استعمال بہ طور قیمت ہوتا تھا۔ کوئی شخص کوئی غذائی جنس لے کر بازار جاتا اور اس کے عوض جو چیز بھی خریدنا چاہتا تھا، بہ آسانی خرید لیتا تھا۔ لیکن بعد میں حالات مختلف ہوگئے۔ اب غذائی اجناس کا تبادلہ دوسری اشیا سے ختم ہوچکا ہے۔ ہرچیز کو روپے کے عوض ہی بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ اس لیے موجودہ دورمیں صدقۂ فطر کے طور پر غذائی اجناس کے بجائے نقدی رقم دینا نہ صرف جائز، بلکہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔