صدقۂ فطر بہت سے لوگ انفرادی طور پر ادا کرتے ہیں، جب کہ بعض لوگ کسی دینی تنظیم، جمعیت یا ادارے کو دے دیتے ہیں۔ صدقۂ فطر کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ اسے عیدالفطر کی نماز سے قبل ادا کردینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص اپنا صدقۂ فطر عید الفطر سے قبل کسی دینی تنظیم کو دے دے، لیکن وہ تنظیم عید سے قبل اسے کسی غریب تک نہ پہنچاسکے تو کیا اس شخص کا صدقۂ فطر ادا مانا جائے گا؟ یہ بھی واضح فرمادیں کہ اگر کسی وجہ سے کوئی شخص عید سے قبل صدقۂ فطر نہ ادا کرسکے تو کیا بعد میں اسے ادا کرسکتا ہے؟ یا اب اس کی قضا کی کوئی صورت نہیں۔
جواب
رمضان المبارک کے آخری ایام کا ایک اہم عمل یہ ہے کہ گھر کے تمام افراد کی طرف سے صدقۂ فطر نکالا جائے حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں
فَرَضَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ علیهِ وسلمَ زكاةَ الفطرِ
(بخاری۱۵۰۳، مسلم۹۸۴)
’’رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر ادا کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے۔‘‘
حضرت ابن عمرؓ سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید الفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے قبل تک صدقہ فطر نکالنے کا حکم دیا ہے (مسلم۹۸۶)
صدقۂ فطر انفرادی طور پر ادا کیا جاسکتا ہے اور اس کے اجتماعی جمع وتقسیم کا نظم بھی کیا جاسکتا ہے کہ لوگ اپنا اپنا صدقۂ فطر کسی دینی تنظیم یا رفاہی ادارے میں جمع کرادیں اور وہ اسے غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کردے۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں اس کا اجتماعی نظم بھی قائم تھا۔ حضرت ابوہریرۃؓ ایک موقع کا واقعہ بیان کرتے ہیں
وَكَّلَنِی رَسولُ اللَّهِ ﷺ بحِفْظِ زَكاةِ رَمَضانَ (بخاری۲۳۱۱)
’’رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان میں (مسجد نبوی میں جمع ہونے والے) صدقہ فطر کی نگرانی کی ذمے داری دی۔‘‘
حضرت نافعؒ نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ عید الفطر سے دو تین دن قبل صدقۂ فطر اس شخص کے پاس بھیج دیتے تھے جو اسے جمع کرتا تھا (موطا امام مالک۶۲۸)
صدقہ فطر کی تقسیم چاہے انفرادی طور پر کی جائے یا اجتماعی طور پر، کوشش کرنی چاہیے کہ وہ عید الفطر سے قبل غریبوں تک پہنچ جائے۔ جو اجتماعی ادارے اسے جمع وتقسیم کرنے کا نظم کرتے ہیں انھیں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اگر کچھ تقسیم ہونے سے رہ جائے تو اسے بعد میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
اس معاملے میں اجتماعی ادارے غریبوں کے نمائندہ ہیں۔ افراد کی طرف سے ان تک صدقۂ فطر پہنچ جانے کا مطلب یہ ہے کہ افراد کا صدقہ فطر ادا ہوگیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام اللہ کے رسول ﷺ کی ہدایت کے مطابق اپنا صدقۂ فطر عید کی نماز کے لیے نکلنے سے قبل جمع کردیتے تھے اور آپؐ نماز سے واپسی کے بعد اسے تقسیم فرماتے تھے۔ حضرت عائشہؓ، حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے
یأمُرُ بإخراجِھَا قبل أن یغدُوَ إلى المصلّى، وكان یقسِمُها إذا رَجَع (المحلی، ابن حزم، ۶/۱۲۰)
’’آپؐ عید گاہ کے لیے نکلنے سے قبل صدقہ فطر نکالنے کا حکم دیتے تھے اور وہاں سے واپس آنے کے بعد اسے تقسیم کرتے تھے۔‘‘
اگر کوئی شخص نماز عید الفطر سے قبل صدقۂ فطر نہ نکال سکے تو اس کا حکم ساقط نہیں ہوجاتا اسے بعد میں نکال دینا چاہیے۔ اگرچہ بعد میں نکالنے کی صورت میں اس کا اجر کم ہوجائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے
مَنْ أدّاها قَبْلَ الصلاةِ فَھِیَ زكاةٌ مقبولَةٌ، وَمَنْ أدّاها بَعْدَ الصلاةِ فھِیَ صدَقَةٌ مِنَ الصدَقاتِ(ابوداؤد۱۶۰۹، ابن ماجہ۱۸۲۷)
’’جس شخص نے نماز عید سے قبل صدقۂ فطر ادا کردیا اس کا صدقہ بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوگا اور جو نماز کے بعد ادا کرے اس کے صدقے کی حیثیت عام صدقات کی طرح ہوگی۔‘‘