صلٰوۃ التسبیح کی شرعی حیثیت

صلوٰۃ التسبیح مخصوص طریقے سے ادا کی جاتی ہے۔ اس میں متعین تعداد میں تسبیحات پڑھی جاتی ہیں ۔ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے اور صلوٰۃ التسبیح پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
جواب

بعض روایات میں صلوٰۃ التسبیح کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس پر بہت اجر و ثواب بتایا گیا ہے۔ حضرت عکرمہؓ اپنے استاد حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے باپ حضرت عباس بن عبد المطلبؓ سے فرمایا: ’’اے میرے چچا! کیا میں آپ کو ایک خاص چیز نہ دوں ؟ کیا میں آپ کو دس ایسی چیزیں نہ بتاؤں کہ اگر آپ انھیں اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے شروع اور آخر کے، پرانے اور نئے، عمداً کیے ہوئے اور غلطی سے کیے ہوئے، چھوٹے بڑے، علانیہ اور پوشیدہ تمام گناہ معاف کردے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ بتایا، پھر آخر میں فرمایا: ’’اگر آپ یہ نماز ہر روز پڑھ سکتے ہوں تو پڑھیے، اگر ہفتہ میں ایک بار پڑھ سکتے ہوں تو پڑھیے، اگر سال میں ایک مرتبہ پڑھ سکتے ہوں تو پڑھیے اور اگر عمر بھر میں ایک مرتبہ پڑھ سکتے ہوں تو پڑھیے۔‘‘ اس روایت کے مطابق صلوٰۃ التسبیح کا، جو طریقہ آں حضرت ﷺ نے اپنے چچا کو بتایا تھا وہ یہ ہے: ’’آپ چار رکعت نماز پڑھیں ، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اور کوئی دوسری سورہ پڑھیں ۔ پہلی رکعت میں قرأت سے فارغ اور قیام کی حالت میں ہوں تو پندرہ مرتبہ یہ دعا پڑھیں : سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر۔ پھر رکوع کیجیے اور اس میں یہی دعا دس مرتبہ پڑھیے، پھر رکوع سے سر اٹھایئے اور دس مرتبہ یہی دعا پڑھیے، پھر سجدہ کیجیے اور دس مرتبہ یہی دعا پڑھیے، پھر سجدہ سے سر اٹھا کر بیٹھیے اور دس مرتبہ یہی دعا پڑھیے، پھر دوسرا سجدہ کیجیے اور دس مرتبہ یہی دعا پڑھیے، پھر سجدہ سے سر اٹھا کر بیٹھیے۔ گویا ہر رکعت میں آپ پچہتر مرتبہ یہ دعا پڑھیے، پھر دوسری، تیسری اور چوتھی رکعت میں بھی آپ پچہتر مرتبہ یہی دعا پڑھیے۔‘‘ یہ روایت سنن ابی داؤد (کتاب التطوع، باب صلاۃ التسبیح، حدیث: ۱۲۹۷)، سنن ابن ماجہ (ابواب اقامۃ الصلوٰۃ، باب ماجاء فی صلاۃ التسبیح، حدیث: ۱۳۸۶، ۱۳۸۷) کے علاوہ صحیح ابنِ خزیمہ، معجم طبرانی اور سنن بیہقی میں بھی مروی ہے۔ علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ محدث سندی فرماتے ہیں : بعض حفاظ ِ حدیث نے اس حدیث پر کلام کیا ہے۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث ثابت ہے، اس پر عمل کیا جاسکتا ہے (والصحیح انہ حدیث ثابت ینبغی للناس العمل بہ)۔
سوال: ’صلوٰۃ التسبیح کی شرعی حیثیت‘ کے زیر عنوان اس کی افضلیت کی رائے ظاہر کی گئی ہے اور اس سلسلے میں وارد حدیث کے بارے میں کہا گیا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث ثابت ہے اور ا س پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ الموسوعۃ الفقہیۃ کویت کی جلد ۲۷، ص:۱۵۰-۱۵۱ پر بحث کے بعد تیسرا قول اس کے غیر مشروع کا بھی ہے، جیسا کہ رقم ہے:
الحکم التکلیفی: اختلف الفقہاء فی حکم صلاۃ التسبیح، و سبب اختلافھم فیھا اختلافھم فی ثبوت الحدیث الوارد فیھا: القول الاول: قال بعض الشافعیۃ: ھی مستحبۃ، و قال النووی فی بعض کتبہ: ھی سنۃ حسنۃ۔۔۔
القول الثانی: ذھب بعض الحنابلۃ الی أنھا لا بأس بھا، و ذلک یعنی الجواز۔۔۔
والقول الثالث: أنھا غیر مشروعۃ۔ قال النووی فی المجموع: فی استحبابھا نظر لأن حدیثھا ضعیف و فیھا تغییر لنظم الصلاۃ المعروف فینبغی الاّ یفعل بغیر حدیث و لیس حدیثھا ثابت، و نقل ابن قدامۃ ان أحمد لم یثبت الحدیث الوارد فیھا ولم یرھا مستحبۃ۔ قال: و قال أحمد: ما تعجبنی، قیل لہ، لم؟ قال: لیس فیھا شیء یصحّ، و نفض یدہ کالمنکر۔
والحدیث الوارد فیھا جعلہ ابن الجوزی من الموضوعات۔ و قال ابن حجر فی التلخیص الحبیر، ج:۲، ص:۷، الحق أن طرقہ کلھا ضعیفۃ… قال: و قد ضعفھا ابن تیمیۃ والمزّی، و توقف الذھبی، حکاہ ابن عبد الھادی فی احکامہ۔ ولم نجد لھذہ الصلاۃ ذکرًا فیما اطّلعنا علیہ من کتب الحنفیۃ والمالکیۃ، الاّ ما نقل فی التلخیص الحبیر، عن ابن العربی أنہ قال: لیس فیھا حدیث صحیح ولا حسن۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ ج:۲۷، ص:۱۵۰-۱۵۱)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صلوٰۃ التسبیح کی شرعی حیثیت محل نظر ہے، اس لیے مطلق اس کے استحباب پر حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
بہ راہ کرم اس سلسلے میں وضاحت فرمائیں ۔
جواب: الموسوعۃ الفقھیۃمیں صلاۃ التسبیح کے بارے میں مفصل بحث موجود ہے۔ اس کے مطابق فقہاء کے تین گروہ ہیں ۔ ایک گروہ اسے مستحب قرار دیتا ہے، دوسرا اس کے جواز کا قائل ہے اور تیسرا اسے غیر مشروع کہتا ہے۔ فقہاء کا یہ اختلاف اس بات پر مبنی ہے کہ اس کی فضیلت سے متعلق، جو حدیث مروی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں ؟ علماء و محدثین کا ایک گروہ اسے صحیح قرار دیتا ہے تو دوسرا گروہ اسے ضعیف یا موضوع کہتاہے۔ الموسوعۃ الفقھیۃ میں دونوں گروہوں کا ذکر ہے۔ آپ نے غیر مشروع قرار دینے والو ں کے اقوال تو پورے نقل کردیے ہیں ، لیکن صحیح قرار دینے والوں کے اقوال، جو الموسوعۃ الفقھیۃ میں درج کیے گئے تھے۔ حذف کردیے۔ سطور ذیل میں انھیں بھی نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
قالوا: و قد ثبت ھٰذا الحدیث من ھذہ الروایۃ، و ھو ان کان من روایۃ موسٰی بن عبدا لعزیز فقد وثّقہ ابن معین، و قال النسائی: لیس بہ بأس، و قال الزرکشی: الحدیث صحیح و لیس بضعیف، و قال ابن الصلاح: حدیثھا حسن و مثلہ قال النووی فی تہذیب الأسماء واللغات۔ و قال المنذری: رواتہ ثقات۔
(الموسوعۃ الفقھیۃ، ج۲۷، ص۱۵۰-۱۵۱)
’’(صلوٰۃ التسبیح کو مستحب قرار دینے والوں نے سنن ابی داؤد میں مروی، جس حدیث سے استدلال کیا ہے، اس کے بارے میں ) وہ کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے ثابت ہے۔ اس میں اگرچہ ایک راوی موسیٰ بن عبد العزیز ہیں (جن پر بعض علماء نے کلام کیا ہے) لیکن ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اور نسائی نے فرمایا ہے کہ ان کی روایت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ زرکشی فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے، ضعیف نہیں ہے، ابن الصلاح نے لکھاہے: صلوٰۃ التسبیح والی حدیث حسن ہے۔ ایسی ہی بات نووی نے تہذیب الاسماء واللغات میں لکھی ہے۔ منذری فرماتے ہیں : اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔‘‘
جب کسی حدیث کی صحت و عدم صحت کے بارے میں محدثین کے دو گروہ ہوں ۔ ایک اس کو صحیح قرار دیتا ہو اور دوسرا غیر صحیح، تو اتنی آسانی سے اس حدیث کو بے اصل اور اس پر مبنی حکم کو غیرمشروع قرار نہیں دیا جاسکتا۔
صلوٰۃ التسبیح کی حدیث کن کن کتب حدیث میں آئی ہے اور اس پر محدثین نے کیا بحثیں کی ہیں ، انھیں سطور ذیل میں نقل کردینا مناسب معلوم ہوتاہے۔
صحاح ستہ میں سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کے علاوہ یہ سنن ترمذی میں بھی مروی ہے۔ ملاحظہ کیجیے ابواب الصلاۃ، باب ماجاء فی صلاۃ التسبیح، حدیث: ۴۸۲
امام ترمذی نے لکھا ہے کہ صلاۃ التسبیح کی حدیث حضرت ابن عباسؓ کے علاوہ حضرت انس بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن عمروؓ، حضرت فضل بن عباسؓ اور حضرت ابو رافعؓ سے بھی مروی ہے۔ وہ مزید فرماتے ہیں :
وقد روی عن النبی ﷺ غیر حدیث فی صلاۃ التسبیح، ولا یصحّ منہ کبیر شیء، و قد رأی ابن المبارک و غیر واحد من اھل العلم صلاۃ التسبیح، و ذکروا الفضل فیہ۔ (ترمذی، حوالۂ سابق)
’’صلاۃ التسبیح کے بارے میں نبی ﷺ سے ایک سے زائد حدیثیں مروی ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر صحیح نہیں ہیں ۔ ابن المبارکؒ اور متعدد اصحاب علم صلوٰۃ التسبیح کے قائل ہیں اور انھوں نے اس کی فضیلت بیان کی ہے۔‘‘
فقہ السنہ اسلامی فقہ کے عصری لٹریچر کی ایک اہم اور قابل ذکر کتاب ہے۔ اس کے مصنف مشہور اخوانی السید سابق ہیں ۔ انھوں نے صلوٰۃ التسبیح کا اثبات کرکے دلیل میں وہی حدیث پیش کی ہے، جو اوپر ذکر کی گئی ہے اور اس کا یہ حکم بیان کیا ہے:
رواہ ابو داؤد و ابن ماجۃ وابن خزیمۃ فی صحیحہ والطبرانی۔ قال الحافظ: و قد روی ھذا الحدیث من طرق کثیرۃ و عن جماعۃ من الصحابۃ، و أمثلھا حدیث عکرمۃ ھذا، و قد صحّحہ جماعۃ، منھم الحافظ ابوبکر الآجری و شیخنا ابو محمد عبد الرحیم المصری و شیخنا الحافظ ابو الحسن المقدسی رحمہم اللّٰہ۔ قال ابن المبارک: صلاۃ التسبیح مرغّب فیھا۔ یستحب ان یعتادھا فی کل حین ولا یتغافل عنھا۔ (فقہ السنۃ، السید سابق، ص۲۱۲)
’’اس حدیث کو ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن خزیمہ (نے اپنی صحیح میں ) اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ (ابن حجر) فرماتے ہیں : یہ حدیث بہت سے طرق سے متعدد صحابہؓ سے مروی ہے۔ ان میں سب سے اچھی عکرمہ کی یہ روایت ہے۔ اسے بہت سے محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔ ان میں حافظ ابوبکر الآجری، ہمارے شیخ ابو محمد عبد الرحیم المصری اور ہمارے شیخ حافظ ابو الحسن المقدسی بھی ہیں ۔ ابن المبارکؒ نے فرمایا ہے: صلوٰۃ التسبیح کی ترغیب آئی ہے۔ مستحب یہ ہے کہ ہمہ آں اسے معمول بنا لیا جائے اور اس سے غفلت نہ برتی جائے۔‘‘
سنن ابی داؤد کا ایک محقّق نسخہ بیت الافکار الدولیۃ ریاض سے شائع ہوا ہے۔ اس میں اس حدیث کے بعد امام سیوطیؒ کے حوالے سے اس کا، جو حکم بیان کیا گیا ہے، اسے بھی نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
قال السیوطی: وأفرط ابن الجوزی فأورد ھذا الحدیث فی کتاب الموضوعات و اعلّہ بموسیٰ بن عبد العزیز، قال انہ مجھول، قال الحافظ ابو الفضل بن الحجر فی کتاب الخصال المکفّرۃ للذنوب المقدمۃ والمؤخرۃ: أساء ابن الجوزی بذکر ھذا الحدیث فی الموضوعات، و قولہ ان موسٰی بن عبد العزیز مجھول لم یُصِب فیہ فان ابن معین والنسائی وثّقاہ، و قال فی أمالی الأذکار: ھذا الحدیث أخرجہ البخاری فی جزء القراء ۃ خلف الامام، و ابو داؤد وابن ماجۃ وابن خزیمۃ فی صحیحہ والحاکم فی مستدرکہ و صحّحہ البیھقی وغیرھم۔ و قال ابن شاھین فی الترغیب: سمعت أبا بکر ابن داؤد یقول سمعت أبی یقول أصحّ حدیث فی صلاۃ التسبیح ھذا۔ قال: و موسٰی بن عبدا لعزیز وثّقہ ابن معین والنسائی وابن حبان و روی عنہ خلق، أخرج البخاری فی جزء القراء ۃ ھذا الحدیث بعینہ و أخرج لہ فی الأدب حدیثاً فی سماع الرعد، و ببعض ھذہ الأمور ترتفع الجھالۃ، و ممّن صحّح ھذا الحدیث أو حسّنہ غیر من تقدّم: ابن مندہ و ألّف فی تصحیحہ کتا باً والآجری والخطیب و أبو سعد السمعانی و أبو موسیٰ المدینی و أبو الحسن بن المفضل والمنذری وابن الصلاح والنووی فی تہذیب الأسماء و آخرون، قال الدیلمی فی مسند الفردوس: صلاۃ التسبیح أشھر الصلوات و أصحّھا اسنادًا، و روی البیہقی وغیرہ عن أبی حامد الشرقی قال: کنت عند مسلم بن الحجاج و معنا ھذا الحدیث فسمعت مسلماً یقول: لا یروی فیھا اسناداً أحسن من ھٰذا، و قال الترمذی: قد رأی ابن المبارک وغیرہ من أھل العلم صلاۃ التسبیح و ذکروا الفضل فیھا۔ و قال البیھقی: کان عبد اللّٰہ بن المبارک یصلّیھا و تداولھا الصالحون بعضھم عن بعض، و فیہ تقویۃ للحدیث المرفوع۔
’’ سیوطی نے فرمایا ہے: ابن الجوزی نے اس حدیث کو کتاب الموضوعات میں شامل کرکے زیادتی کی ہے۔ انھوں نے اس کی علّت موسیٰ بن عبد العزیز کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ مجہول ہیں ۔ حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب الخصال المکفّرۃ میں لکھا ہے: ابن الجوزی نے اس حدیث کو کتاب الموضوعات میں درج کرکے برا کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ موسیٰ بن عبد العزیز مجہول ہیں ، صحیح نہیں ۔ اس لیے کہ ابن معین اور نسائی نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ابن حجر نے أمالی الأذکار میں لکھا ہے: اس حدیث کو امام بخاری نے (جزء القراء ۃ خلف الامام میں ) ابو داؤد، ابن ماجہ اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور حاکم نے اپنی مستدرک میں بیان کیا ہے۔ بیہقی اور دیگر محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ابن شاہین نے الترغیب میں لکھا ہے: میں نے ابو بکر بن ابی داؤد کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ’’میرے باپ بیان کرتے تھے کہ صلوٰۃ التسبیح کے سلسلے میں سب سے صحیح حدیث یہی ہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے: موسیٰ بن عبدا لعزیز کو ابن معین، نسائی اور ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے اور ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔ بخاری نے جزء القراء ۃ میں بعینہ اس حدیث کی تخریج کی ہے اور الأدب میں سماع رعد کے موضوع پر ایک حدیث موسیٰ بن عبد العزیز کی سند سے بیان کی ہے۔ ان امور سے موسیٰ بن عبد العزیز مجہول نہیں رہتے۔ دیگر جن حضرات نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے ان میں ابن مندہ (جنھوں نے اس کی صحت پر بحث کرتے ہوئے پوری ایک کتاب لکھی ہے) آجری، خطیب، ابو سعد السمعانی، ابو موسیٰ المدینی، ابو الحسن بن المفضل، منذری، ابن الصلاح، نووی (تہذیب الاسماء) اور دیگر محدثین شامل ہیں ۔ دیلمی نے مسند فردوس میں لکھا ہے: صلوٰۃ التسبیح مشہور نماز ہے اور اس سلسلے میں مروی حدیث کی سند صحیح ترین ہے۔ بیہقی اور دیگر نے ابو حامد شرقی کا یہ قول نقل کیا ہے ’’میں مسلم بن حجاج کے پاس تھا۔ اس وقت یہی حدیث ہمارے درمیان زیر بحث تھی۔ انھوں نے فرمایا: اس موضوع پر مروی احادیث میں سب سے اچھی سند اسی حدیث کی ہے۔‘‘ ترمذی نے فرمایا: ابن المبارک اور دیگر اصحاب علم صلوٰۃ التسبیح کے قائل ہیں اور انھوں نے اس کی فضیلت بیان کی ہے۔ بیہقی نے فرمایا ہے: عبد اللہ بن المبارک یہ نماز پڑھتے تھے۔ بعد میں صالحین میں یہ متداول ہوگئی۔ اس سے مرفوع حدیث کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔‘‘
’جامع الاصول فی احادیث الرسول‘ محدث ابن الاثیر الجزری (م ۶۰۶ھ) کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں انھوں نے حدیث کی امہات الکتب سے مخصوص ترتیب کے ساتھ احادیث جمع کی ہیں ۔ سنن ابو داؤد اور سنن ترمذی کے حوالے سے انھوں نے اس حدیث کو بھی نقل کیا ہے۔ اس کتاب کے نصوص کی تحقیق، احادیث کی تخریج اور تعلیق کی خدمت موجودہ دور کے مشہور محقّق عبد القادر الارناؤوط نے انجام دی ہے۔ اس حدیث پر انھوں نے یہ حاشیہ لگایا ہے:
رواہ ابو داؤد… والترمذی… والحاکم فی المستدرک… و صحّحہ و وافقہ الذھبی، و ھو حدیث صحیح لطرقہ و شواھدہ الکثیرۃ، و قد صحّحہ جماعۃ من العلماء۔ (جامع الاصول، ۶/۲۵۴)
’’اس کی روایت ابو داؤد اور ترمذی نے کی ہے اور حاکم نے مستدرک میں اسے بیان کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ذہبی بھی ان کے ہم خیال ہیں ۔ بہت سے طرق اور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے۔ بہت سے علماء نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔‘‘
علاّمہ محمد ناصر الدین الالبانی (م۱۹۹۹) عصر حاضر کے مشہور محدث ہیں ۔ تحقیق ِ حدیث کے معاملے میں بہت سخت تصور کیے جاتے ہیں ۔ مگر انھوں نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ سنن ابی داؤد، سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں ، جن سندوں سے یہ حدیث مروی ہے سب کو انھوں نے صحیح کہا ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح میں انھوں نے اس حدیث پر، جو حاشیہ لگایا ہے اسے یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، لکھتے ہیں :
’’اس حدیث کو ابو داؤد (۱۲۹۷) اور ابن ماجہ (۱۳۸۷) نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔ اس میں موسیٰ بن عبد العزیز اور حکم بن ابان ہیں ۔ یہ دونوں حافظہ کے پہلو سے ضعیف ہیں ۔ حاکم (۱/۳۱۸) پھر ذہبی نے اس کے قوی ہونے کا اشارہ کیا ہے۔ یہی بات صحیح ہے۔ اس لیے کہ اس حدیث کے بہت سے طرق اور شواہد ہیں ، جن سے واقفیت رکھنے والے کو قطعی طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ جن لوگوں نے اسے موضوع یا باطل کہا ہے، ان کے برخلاف اس حدیث کی مضبوط بنیاد موجود ہے۔ خطیب بغدادی نے ایک کتاب میں ، جو مکتبۂ ظاہریہ دمشق میں بہ صورت مخطوطہ محفوظ ہے، اس کے تمام طرق کو جمع کردیا ہے۔ علامہ ابو الحسنات (عبد الحی) لکھنوی نے اپنی کتاب الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ (ص۳۵۳-۳۷۴) میں اس پر تحقیقی بحث کی ہے، تفصیل کے طالب کو اس سے رجوع کرنا چاہیے۔ ان کی بحث قاری کو اس موضوع پر لکھی جانے والی تمام تحریروں سے بے نیاز کردیتی ہے۔ انھوں نے اس کے قوی ہونے کا اشارہ اس بات سے بھی کیا ہے کہ اس کے بعد ابو رافع والی سند بیان کی ہے۔ اس حدیث کے بارے میں اور اس موضوع پر دیگر احادیث کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ کے مفصل جوابات ملاحظہ کیجیے، جو اس کتاب کے آخر میں شامل ہیں ۔‘‘ (مشکوٰۃالمصابیح، بتحقیق علامہ محمد ناصر الدین الالبانی، ۱/۴۱۹)
صلوٰۃ التسبیح کے موضوع پر مروی حدیث کے بارے میں اتنی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی تاکہ اس حدیث کے بارے میں پایا جانے والا اشکال رفع ہوسکے اور واضح ہوجائے کہ جہاں ایک طرف بعض محدثین نے اس پر کلام کیا ہے اور اس کو ضعیف یا موضوع کہا ہے، وہیں بہت سے پایے کے محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔