ضعیف اور موضوع احادیث

ہمارے روایتی مذہبی لٹریچر میں ، بالخصوص وہ لٹریچر جو خانقاہی، صوفیانہ، بریلوی اور بعض دیگر حلقوں میں زیادہ پڑھاجاتا ہے، درج ذیل حدیثوں کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے: لَوْلاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاَکَ۔ کُنْتُ نَبِیًّا وَ آدَمُ بَیْنَ الْمَائِ وَالطِّیْنِ۔ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ۔ اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ حدیثیں صحیح ہیں ؟ سند، روایت، درایت، اور حدیثوں کی صحت و عدمِ صحت کے تعلق سے دیگر معیارات کے مد ِ نظر ان کی صحت ثابت شدہ ہے یا نہیں ؟ اگر یہ حدیثیں اپنے الفاظ اور ظاہری مفہوم کے اعتبارسے درست اور مبنی برحقیقت ہیں تو ان کا صحیح مفہوم و مدلول اور مقصود ِ بیان کیا ہے؟ بہ راہِ کرم جواب سے نوازیں ۔
جواب

احادیث کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو قرآن فہمی پر بہت زور دیتے ہیں ، لیکن احادیث کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کے نزدیک احادیث ِ نبوی کی حیثیت محض تاریخی سرمایے کی ہے، جو تعبیر ِ دین کے معاملے میں اپنی کچھ معتبریت نہیں رکھتا۔ اس لیے وہ خواہ کتنی ہی صحیح اور ثابت شدہ کیوں نہ ہوں ، دین کے معاملے میں حجت نہیں ہیں ۔ کچھ دوسرے لوگ ہیں جو احادیث کو قرار واقعی ان کا صحیح مقام دیتے ہیں ، انھیں حجت تسلیم کرتے ہیں اور معاملات ِ زندگی میں ان سے رہ نمائی حاصل کرنے کے قائل ہیں ، لیکن اس کے اخذ و استفادے کے سلسلے میں ان کا رویہ درست نہیں ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ایک زمانے میں بہت سے گم راہ فرقوں اور بد باطن افراد نے ہزاروں احادیث گھڑی ہیں اور بے بنیاد روایات اور بے سر و پا اقوال کو ارشادات ِ رسول کی حیثیت سے رواج دینے کی ناپاک کوششیں کی ہیں ۔ اللہ جزائے خیر دے محدثین کرام اور ناقدین ِ حدیث کو، کہ انھوں نے انتھک جدو جہد کرکے کھرے کھوٹے میں تمیز کی اور صحیح احادیث اور ضعیف و موضوع روایات کو چھانٹ کر الگ الگ کردیا۔ اس لیے احادیث سے استفادہ اور استناد کے وقت غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کسی غیر ثابت شدہ قول کو ارشاد ِ نبوی کی حیثیت سے پیش کرنے پر سخت وعید آئی ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ تَعَمَّدَ عَلَیَّ کِذْبًا فَلْیَتَبَوَّأَ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم، ۱۰۸، مزید ملاحظہ کیجیے: صحیح مسلم، کتاب الزہد، ۷۵۱۰)
’’جس شخص نے جان بوجھ کر میری جانب کوئی جھوٹی بات منسوب کی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
آپ نے جن روایات کا تذکرہ کیا ہے، مشہور محدثین اور معتبر ناقدین ِ حدیث نے ان کو موضوع (من گھڑت) اور ضعیف قرار دیا ہے۔ ذیل میں اس سلسلے میں کسی قدر تفصیل درج کی جاتی ہے:
(۱) لَوْلاَ کَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاَ کَ
یعنی اے محمدؐ! اگر آپ نہ ہوتے تو یہ دنیا نہ پیدا کی جاتی۔ روایت میں ہے کہ یہ بات ایک موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آں حضرت ﷺ سے فرمائی تھی۔ اس روایت کو دیلمی اور ابن ِ عساکر نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، لیکن مشہور ناقدین ِ حدیث نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔
ملاحظہ کیجیے ابن الجوزی، الموضوعات، حسن صغانی، الاحادیث الموضوعۃ (ص ۷) جلال الدین سیوطی، اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ (۱/۲۷۲) ناصر الدین الالبانی، سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (۱/۲۹۹- ۳۰۰)
(۲) کُنْتُ نَبِیًّا وَّ آدَمُ بَیْنَ الْمَائِ وَالطِّیْنِ
یعنی میں نبی ہوں اس وقت سے جب کہ آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے، یعنی ان کی ابھی تخلیق نہیں ہوئی تھی۔ اسے مشہور فلسفی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب ’فصوص الحکم‘ میں نقل کیا ہے۔ علامہ ابن ِ تیمیہؒ نے ان پر سخت نقد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت بے بنیاد ہے، کسی محدث نے اس کی روایت نہیں کی ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ۲/ ۱۴۷، ۲۳۸) اس مضمون کی ایک روایت کچھ مختلف الفاظ میں ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کی ہے: کُنْتُ نَبِیًّا وَ آدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ۔ اس کی سند بھی مضبوط نہیں ہے۔ اس میں ایک راوی قیس بن الربیع ہے، جس سے بعض منکر روایات مروی ہیں ۔ امام ترمذی نے اسے کتاب العلل میں ذکر کیا ہے اور اسے ’غریب‘ قرار دیاہے، جو ضعیف کی ایک قسم ہے۔ (عبد الرؤف مناوی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، دار احیاء السنۃ النبویۃ، ۵/۵۴)
(۳) اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ
یعنی سب سے پہلے اللہ نے میرے نور کو پیدا کیا۔ پوری روایت یوں ہے کہ ’’ایک مرتبہ حضرت جابرؓ نے آں حضرت ﷺ سے دریافت کیا: اللہ نے اشیائے کائنات میں سب سے پہلے کس کو پیدا کیا؟ آپؐ نے جواب دیا: اے جابر! اللہ نے سب سے پہلے تمھارے نبی کے نور کو پیدا کیا۔‘‘ اسے بھی محدثین نے موضوع قرار دیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے عبد الحی فرنگی محلی، الآثار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ، ص ۲۷۲، اسماعیل عجلونی، کشف الخفاء و مزیل الالباس(۱/۲۶۵)، ناصر الدین الالبانی، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (۱/۸۲۰) میں ضمنی حوالہ۔
(۴) اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا
یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ۔ اس روایت کو احمد، حاکم، طبرانی، ابن عدی اور ابو نعیم وغیرہ نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اس کے بارے میں محدثین مختلف الرائے ہیں ۔ حافظ علائی، زرکشی اور حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ بہت سی سندوں سے مروی ہے۔ اگرچہ یہ سندیں قوی نہیں ہیں ، لیکن کثرت ِ طرق سے ’حسن‘ کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں ۔ لیکن علامہ ابن الجوزی، ذہبی، ابو زرعہ، یحيٰ بن معین، دار قطنی نے اسے موضوع اور بے اصل قرار دیا ہے۔ امام بخاری اور امام ترمذی اسے منکر کہتے ہیں ۔ (عبدا لرؤف مناوی، فیض القدیر، ۳/۴۷)
علامہ ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب منہاج السنۃ النبویۃ میں اس پر مفصل بحث کرتے ہوئے اسے شیعوں کی من گھڑت قرار دیا ہے۔ ناصر الدین البانیؒ بھی اسے غیر صحیح اور قابل ِ رد کہتے ہیں ۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ۱/۲۲، مقدمہ)
ڈاکٹر محمد سعود عالم قاسمی نے اپنی کتاب میں ان روایات کا تذکرہ موضوع روایات کی حیثیت سے کیا ہے۔ (فتنۂ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۱۹۹۰ء، ص ۱۲۱، ۱۲۳، ۳۲)
احادیث ِ نبوی سے استفادے کے معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اور احتیاط پر مبنی رویہ یہ ہے کہ فضائل و مناقب کے معاملے میں بھی صرف صحیح اور ثابت شدہ احادیث سے استفادہ کیا جائے اور ضعیف اور موضوع روایات سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے۔