طلاق کا ایک مسئلہ

 ایک جوڑے کے نکاح کو دو برس ہوئے ہیں۔ ان کا ایک لڑکا ہے۔ نکاح کے بعد ہی سے ان کے درمیان جھگڑے ہوتے رہے ہیں۔ چند دنوں قبل کسی بات پر جھگڑا ہوا۔ معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے دونوں خاندانوں کے لوگ اکٹھا ہوئے۔ سنجیدگی سے بات چیت ہو رہی تھی کہ اچانک لڑکے نے لڑکی سے کہہ دیا’’ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے۔ ‘‘سب لوگ سکتے میں آگئے۔ لڑکی والے خاموشی سے لڑکی کو اپنے ساتھ لے گئے۔

چند گھنٹوں کے بعد لڑکے کا غصہ ختم ہوا تو وہ بہت پریشان ہے۔ اسے پچھتاوا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرا منشا طلاق دینے کا نہیں تھا۔ میں قرآن کی قسم کھاتا ہوں۔ وہ اہل ِحدیث دارالافتاء سے فتویٰ بھی لے آیا ہے کہ یہ طلاق رجعی ہوئی، دونوں اب بھی میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں، جب کہ لڑکی والے کہتے ہیں کہ ہم حنفی مسلک کو ماننے والے ہیں۔اس کے مطابق تین طلاق کے بعد رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا ہے۔ وہ حلالہ کے بھی خلاف ہیں۔ لڑکی کے گھر کے بعض افراد کا کہنا ہے کہ اہل ِحدیث فتویٰ کو مان کر رجوع کرادینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

براہِ کرم اس معاملے میں رہ نمائی فرمائیں۔ کیا کیا جائے؟

جواب

نکاح کی دو سالہ مدّت کچھ زیادہ نہیں۔ ابتدا ہی سے زوجین کے درمیان لڑائی جھگڑا افسوس ناک ہے۔ عام طور سے شوہر بیوی کو دبانے اور اس پر دھونس جمانے کے لیے طلاق کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جو قابلِ مذمّت ہے۔ اسلام کی عائلی تعلیمات کے بارے میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔

فقہ حنفی میں بھی کہا گیا ہے کہ اگر شوہر لفظ طلاق کو دہرائے اور بعد میں حلفیہ طور پر کہے کہ اس کا مقصد ایک سے زائد طلاق دینا نہیں تھا تو اس کی بات مانی جائے گی اور ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترتیب کردہ ’مجموعۂ قوانین اسلامی‘ کے نئے ایڈیشن (جنوری ۲۰۲۳ء ) کی دفعہ ۲۷۴ میں ہے

’’اگر کسی شخص نے طلاق دیتے ہوئے عدد کی صراحت نہیں کی، مگر بار بار طلاق کا جملہ دہرایا، مثلاً تجھے طلاق دی، تجھے طلاق دی، تجھے طلاق دی، یا یوں کہا تجھے طلاق، طلاق، طلاق،تو ایسی صورت میں اگر طلاق دینے والا یہ اقرار کرے کہ اس نے دو یا تین بار لفظ طلاق دہراکر دو یا تین طلاق دینی چاہی ہے تو ایسی صورت میں دو یا تین طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر طلاق دینے والا یہ کہتا ہے کہ اس کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور اس نے محض زور پیدا کرنے کے لیے الفاظ ِطلاق دہرائے ہیں، اس کا مقصد ایک سے زائد طلاق دینا نہیں تھا تو اس کا یہ بیان حلف کے ساتھ تسلیم کیا جائے گا اور ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔‘‘(ص ۲۳۳)

اس صورت میں اگر طلاق کے مذکورہ واقعہ کو زیادہ عرصہ (تین ماہ واری) نہیں گزرا ہے تو شوہر کا رجوع کافی ہے۔ اگر زیادہ عرصہ ہوگیا ہے تو نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین