طلاق کا مسئلہ

ایک شخص نے اپنی بیوی کو ہر مہینے ایک طلاق دی، یہاں تک کہ تین طلاقیں پوری ہو گئیں۔ سوال یہ ہے کہ عدّت کا آغاز کب سے ہوگا؟ پہلی طلاق سے، یا آخری طلاق سے؟ پہلی طلاق سے ماننے کی صورت میں آخری طلاق کے بعد ایک اور ماہ واری ہوتے ہی عدت مکمل ہو جائے گی، جب کہ اگر آخری طلاق سے عدّت کا آغاز ہو تو عورت مزید تین ماہ واری (یا تین ماہ) عدّت میں رہے گی۔

جواب

طلاق کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد صرف ایک طلاق دے۔ عدّت (تین ماہ واری یا تین ماہ) پوری ہوتے ہی رشتہ بالکلّیہ ختم ہو جائے گا اور مزید طلاق کی ضرورت نہیں رہے گی، مطلقہ عورت کسی اور سے نکاح کرنے کے لیے آزاد ہوگی۔ اسے ’طلاقِ احسن‘ کہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ ’طلاق حسن‘ کا ہے، یعنی مرد ہر طہر(پاکی کی حالت) میں ایک طلاق دے، یہاں تک کہ تین طلاقیں مکمل ہو جائیں۔

طلاق حسن کی صورت میں عدّت کا آغاز پہلی طلاق سے ہوگا اور تیسری طلاق کے بعد آنے والی ماہ واری تیسری ماہ واری شمار ہوگی، جس کے ساتھ عورت کی عدّت ختم ہو جائے گی۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے مروی ہے:

یطَلِّقُهَا عِندَ کُلِّ طُهرٍتَطلِیقَةٍ، فَإذَا طَهُرَتِ الثَّالِثَةَ طَلَّقَهَا، وَعَلَیهَا بَعدَ ذٰلِکَ حَیضَةٌ۔ (ابن ماجہ: 1654)

’’شوہر ہر طہر میں ایک طلاق دے۔ جب عورت تیسری مرتبہ پاکی کی حالت(طہر) میں آئے تو اسے طلاق دے۔ اس کے بعد ایک ماہ واری آتے ہی عدّت مکمل ہو جائے گی۔ ‘‘

فقہا نے بھی اس کی صراحت کی ہے:

ثُمَّ اِذَا أوقَعَ الثَّلَاثَةَ فِی ثَلَاثَةِ أطھَارٍ فَقَد مَضَت مِن عِدَّتِھَا حَیضَتَانِ اِن کا نَت حُرَّۃً، فَاِذَا حَاضَت حَیضَةً اِنقَضَت عِدَّتُھَا(فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب طلاق السنة، 3؍468)

’’اگر شوہر تین طہر میں تین طلاق دے تو مان لیا جائے گا کہ عورت -اگر وہ آزاد ہے–کی عدّت میں سے دو ماہ واریاں گزرگئیں۔ تیسری ماہ واری آتے ہی اس کی عدّت مکمل ہوجائے گی۔ ‘‘