جواب
ازدواجی تعلق کوقرآن کریم نے ’میثاق غلیظ ‘ (النسا ء: ۲۱) یعنی ’مضبوط معاہدہ ‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ دواجنبی مرد وعورت نکاح کے بندھن میں بندھتے ہیں توان کے درمیان غایت درجہ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس تعلق کے نتیجے میں اگر چہ دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اُٹھاتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں اورایک دوسرے کی مدد اور تعاون سے زندگی گزارتے ہیں ، لیکن اسلام نے مالی معاملات کی تمام تر ذمہ داری مر د پر عائد کی ہے اورعور ت کواس سے مستثنیٰ رکھا ہے ۔ مرد عورت کومہرا ادا کرتا ہے، اسے رہائش فراہم کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے ، اس کا نفقہ برداشت کرتا ہے ، اسے خوش رکھنےکے لیے تحفے تحائف دیتا ہے۔ وغیرہ۔
اگر کسی وجہ سے رشتۂ نکاح پائیدار نہ رہ سکے اورزوجین کے درمیان تنازع کے سر ابھارنے اور مسلسل جاری رہنے کی بناپر نوبت علٰیحدگی تک پہنچ جائے تو شریعت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ شوہر ازدواجی زندگی کا لطف اُٹھاتے ہوئے بیوی کوجو کچھ دے چکا ہواسے واپس لینے کی خواہش نہ رکھے اور اس کی کوشش نہ کرے ۔ صرف ایک صورت اس سے مستثنیٰ رکھی گئی ہے۔ وہ یہ کہ شوہر کےعلٰیحدگی نہ چاہنے کے باوجود بیوی کسی منافرت کی بنا پر رشتہ منقطع کرنے پر مصر ہواور خلع چاہے تو شوہر اپنی دی ہوئی چیزیں ( مہر وغیرہ) واپس لے سکتا ہے ۔ سورۃ البقرۃ، آیت ۲۲۹، جس کا ابتدائی حصہ اوپر سوال میں بھی نقل کیا گیا ہے ، اس میں اس کی صراحت موجود ہے اوراستثنا کا بھی ذکر ہے کہ اس صورت میں ’ ’ یہ معاملہ ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کوکچھ معاوضہ دے کر علٰیحدگی حاصل کرلے ‘‘۔ آیت کا آخری حصہ بہت اہم اوررو نگٹے کھڑے کردینے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا۰ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۲۲۹ (البقرۃ: ۲۲۹)
’’ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو اورجولوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں ‘‘۔
مردوں کوعورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنے ، ان کے معاملے میں اپنا حق چھوڑ دینے ، بلکہ علٰیحدگی کے وقت بھی انہیں کچھ دے کر رُخصت کرنے کی ہدایات قرآن کریم میں دیگر مقامات پر بھی دی گئی ہیں ۔ مثلاً سورۃ البقرۃ ، آیت ۲۳۷ میں ایک مسئلہ یہ بتایا گیا ہے کہ ’’ اگر نکاح کے بعد رـخصتی سے قبل طلاق ہوجائے اور عورت کا مہر مقر ر کیا گیا ہوتو نصف مہر دینا ہوگا ، الّا یہ کہ عورت نرمی برتے اور مہر نہ لے ، یا مرد نرمی سے کام لے اورپورا مہر دے دے ‘‘ ۔ یہ مسئلہ بتادینےکے بعد آگے مردوں کومخاطب کرکے کہا گیا ہے :
وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۭ وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۲۳۷ (البقرۃ: ۲۳۷)
’’ اورتم نرمی سے کام لو تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو ۔ اللہ تمہارے اعمال کودیکھ رہا ہے ‘‘۔
سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ (النساء: ۱۹)
’’ اوران کواس مقصد سے تنگ کرنے کی کوشش نہ کر و کہ جوکچھ تم نے ان کودیاتھا اس کو واپس لے سکو ‘‘۔
اگلی آیت میں توصریح الفاظ میں ممانعت کی گئی ہے :
وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ۰ۙ وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَـيْـــًٔـا۰ۭ اَتَاْخُذُوْنَہٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا۲۰
(النساء: ۲۰)
’’ اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کاارادہ ہی کر لوتو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ،اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ۔ کیاتم اسے بہتان لگا کر اورصریح ظلم کرکے واپس لوگے؟‘‘
ان آیات کی تفسیر میں عموماً مفسرین نے لکھا ہے کہ جس مال کوواپس نہ لینے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد مہر کی رقم ہے۔ لیکن آیات میں جس طرح کا عمومی انداز اختیار کیا گیا ہے ، اس سے ان مفسرین کی بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے جوکہتے ہیں کہ اس میں مہر کے ساتھ شوہر کی جانب سے دی گئی دیگر چیزیں بھی شامل ہیں ۔ مثلاً زیور ، لباس،نقدی اوردیگر تحائف ۔ علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے :
’’ اس آیت میں شوہروں سے خطاب ہے ۔ انہیں منع کیا گیا ہے کہ وہ بیویوں کونقصان پہنچانے کے لیے ان سے کچھ طلب کریں ۔ یہاں خاص طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ انہوں نے بیویوں کو جوکچھ بھی دیا ہو اسے واپس نہ مانگیں ۔ اس لیے کہ لوگوں کا عُرف یہ ہے کہ تنازع اوربگاڑ کے وقت آدمی وہ سب مانگنے لگتا ہے جواس نے عورت کودیاتھا ، چاہےوہ مہر ہویا تحائف ۔ اسی لیے یہاں خاص طور سے عام انداز اختیار کیا گیا ہے ‘‘۔
(الجامع لاحکام القرآن ، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت ، ۲۰۰۶ء: ۴؍۷۳)
بعض اردو مفسرین نے بھی یہی بات لکھی ہے ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا اقتباس اوپر سوال میں موجود ہے ۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے لکھا ہے :
’’ ظاہر ہے کہ اس سے نان نفقہ اورمہر وغیرہ کی قسم کی چیزیں مراد نہیں ہوسکتیں ، اس لیے کہ یہ چیزیں تو عورت کا حق ہیں ۔ ان کو واپس لینے یا کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ اس وجہ سے اس سے لازماً وہ چیزیں مراد ہیں جو بطور تحفہ وغیرہ دی گئی ہوں ۔ ان چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ طلاق ہوجانے کے بعد مرد کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ ان کا حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے۔ اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی خسّت اس فتوّت اوربلند حوصلگی کے منافی ہے جوایک مرد میں ہونی چاہیے ۔ چنانچہ عورتوں کے معاملے میں قرآن نے مردوں کواس فتوّت کی طرف ایک سے زیادہ مقامات میں توجہ دلائی ہے ، خاص طور پر تعلقات کے منقطع ہوجانے کی صورت میں ‘‘۔ (تدبر قرآن فاؤنڈیشن لاہور، ۲۰۰۹ء، ۱/۵۳۵، تفسیر البقرۃ: ۲۲۹)
مولانا شمس پیر زادہؒ نے لکھاہے :
’’طلاق کی صورت میں مرد کومہر نہ واپس طلب کرنا چاہیے اورنہ وہ تحفے تحائف جواس نے بیوی کودیے ہوں ، کیوں کہ دی ہوئی چیز کوواپس لینا ، جب کہ مرد خود عورت کوچھوڑ رہا ہو، اخلاقاً صحیح نہیں ہے اور مہر تو عورت کا حق ہی ہے ، اس لیے اس کوواپس لینے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ‘‘۔ (دعوۃ القرآن ، تفسیر البقرۃ: ۲۲۹)
بعض فتاویٰ میں کہا گیا ہے :
’’ مسئلہ کا دار ومدار عُرف پر ہے ۔ عام طورپر ہماری طرف کا جو عُرف ہے وہ یہ ہے کہ خاوند کی طرف سے جوزیورات بیوی کودیے جاتے ہیں ، اس کا مالک شوہر ہی رہتا ہے، عورت اسے عاریۃ استعمال کرتی ہے۔ جہاں یہ عرف ہو، وہاں شوہر اپنے زیورات کوواپس لے سکتا ہے ‘‘۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند: ۸؍۳۶۷، مسائل جہیز)
اگر واقعی کسی جگہ کا یہ عرف ہو تو اس کے مطابق طلاق کے بعد شوہر اپنے دیے ہوئے زیور کو واپس لے سکتا ہے ، لیکن اس معاملے میں شریعت کے مزاج اورقرآن کریم کی صریح ممانعت کودیکھتے ہوئے بیوی کودیے گئے زیور کو واپس نہ لینا پسندیدہ ہے۔
صورت مسئولہ میں لڑکی کوشوہر کی طرف سے دیے گئے جوزیور طلاق کے بعد اس کی سسرال والوں نے رکھوالیے ہیں ، انہیں لڑکی کوواپس کردینا چاہیے۔ اگراب کسی وجہ سے اس کی واپسی ممکن نہ ہو تو اس کی رقم ادا کردینی چاہیے۔ البتہ رقم کا اعتبار وقتِ خرید کا نہ ہوگا ، بلکہ اِس وقت بازار میں اس زیور کی جو قیمت ہووہ ادا کی جائےگی۔