اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی، پھر وہ رجوع کرنا چاہتا ہے تو وہ کیا کرے؟ کیا رجوع کے لیے بیوی کا شوہر کے پاس موجود رہنا ضروری ہے؟ اگر بیوی موجود نہ ہو تو اس صورت میں رجوع کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب
اگر کوئی شخص صراحت کے ساتھ ایک یا دو طلاق دے تو اسے طلاق رجعی کہتے ہیں، یعنی اس میں عدّت کے اندر شوہر کو رجوع کرنے کا حق حاصل رہتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۰۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِـاِحْسَانٍ۰ۭ
( البقرة۲۲۹)
’’طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے، یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے۔‘‘
آگے پھر کہا گیا ہے
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِكُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ۰۠ (البقرة۲۳۱)
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدّت پوری ہونے کو آجائے، تو یا بھلے طریقے سے انہیں روک لو، یا بھلے طریقے سے رخصت کردو۔‘‘
رجوع کے لیے بیوی کا شوہر کے پاس موجود ہونا ضروری نہیں، البتہ اس کو رجوع کی اطلاع ہونا ضروری ہے۔ شوہر زبان سے کہہ دے، یا لکھ کر بھیج دے کہ میں نے رجوع کرلیا تو رجوع ہوجائے گا۔ بیوی ساتھ ہو اور شوہر اس سے جنسی تعلق قائم کرلے تو اسے بھی رجوع مانا جائے گا۔
اگر شوہر رجوع نہ کرے اور بیوی کی عدّت پوری ہوجائے تو علیحٰدگی مکمّل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد شوہر کو صرف اپنی مرضی سے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا، بلکہ اگر بیوی کی بھی مرضی اور اجازت ہو تو از سرِ نو نئے مہر کے ساتھ دوبارہ ان کا نکاح ہوسکتا ہے، البتہ جتنی طلاق (ایک یا دو) وہ دے چکا ہے اتنی استعمال شدہ سمجھی جائیں گی۔ یعنی اگر اس نے ایک طلاق دینے اور عدّت گزر جانے کے بعد دوبارہ ا پنی مطلّقہ بیوی سے نکاح کیاہے تو اس کے پاس صرف دو طلاقیں بچیں گی۔ ایک طلاق دے کر پھر رجوع کرنے کا اسے ایک اور موقع رہے گا، لیکن دوسری طلاق دینے پر بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔