طواف ِ زیارت ،احرام کے ساتھ یا اس کے بغیر؟

مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب’خطبات‘ کے مضمون ’حج کے فائدے‘ میں مناسکِ حج کی تربیت بیان کی ہے۔انھوں نے لکھاہے ’’دن نکلتا ہے تو (حاجی) منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے ۔(وہاں  بڑے جمرہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں ) پھر اسی جگہ قربانی کی جاتی ہے۔پھر وہاں سے کعبہ کارخ کیاجاتا ہے۔ طواف اور دورکعتوں سے فارغ ہوکر احرام کھل جاتاہے۔ جو کچھ حرام کیا گیا تھا وہ اب پھر حلال ہوجاتاہے اور اب حاجی کی زندگی پھر معمولی طورپر شروع ہوجاتی ہے۔‘‘(ص۲۵۱) اس سے معلوم ہوتاہے کہ حاجی منیٰ میں قربانی کرنے کے بعد احرام نہیں  کھولے گا، بلکہ قربانی کے بعد حرم جاکر طواف کرے گا اور دورکعت نماز ادا کرے گا، اس کے بعد احرام کھولے گا، جب کہ ہمیں  حج کے لیے جاتے وقت بتایا گیا تھا کہ قربانی کے بعد منیٰ ہی میں  احرام کھول دینا ہے۔ چنانچہ سب کے ساتھ میں نے بھی ایسا ہی کیاتھا۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کون ساعمل صحیح ہے؟قربانی کے بعد منیٰ ہی میں  احرام کھول دینا ،یا طواف کرنے اور دورکعت نماز پڑھنے کے بعد احرام کھولنا؟
جواب

دس ذی الحجہ کو منیٰ پہنچنے کے بعد حاجیوں کو درج ذیل کام کرنے ہوتے ہیں  (۱) بڑے جمرہ پرکنکریاں مارنا(۲) قربانی کرنا(۳) حلق یا قصر ،یعنی سرکے بال منڈوانا یا کٹوانا۔ اس کے بعد احرام کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں ۔ حاجی کو چاہیے کہ وہ غسل کرکے کپڑے پہن لے، خوشبولگائے، اس کے بعد طواف وسعی کرنے کے لیے خانۂ کعبہ کا رخ کرے۔بہ الفاظ دیگر وہ دس ذی الحجہ کو منی میں  رمی جمار،قربانی اورحلق یا قصر کے بعد احرام کی پابندیوں  سے آزاد ہوجائے گا۔ اسے ’تحلل اصغر‘ کہاجاتا ہے ۔البتہ میاں  بیوی کے درمیان تعلق خاص کی پابندی اب بھی باقی رہے گی، اس کی اجازت طواف زیارت کے بعد ہوگی ۔ اسے ’تحلل اکبر‘ کہاجاتا ہے۔
منیٰ میں  رمی جمرہ کبریٰ، قربانی اورحلق یا قصر کے بعد احرام کی پابندی ختم ہونے کا اشارہ قرآن مجید سے ملتا ہے۔اس میں قربانی کے ذکر کے بعد ہے
فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَ۝۲۸ۡ ثُمَّ لْيَقْضُوْا تَفَثَہُمْ وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَہُمْ وَلْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ۝۲۹ (الحج۲۸،۲۹)
’’ان (جانوروں  کے گوشت )سے خود بھی کھائیں اورتنگ دست محتاج کو بھی دیں ۔ پھر اپنا میل کچیل دورکریں اور اپنی نذرپوری کریں  اور اس قدیم گھرکا طواف کریں ۔‘‘
مفسرین نے لکھا ہے کہ ’میل کچیل دور کرنے‘ سے مراد سرکے بال مونڈوانا یا کٹوانا، ناخن کاٹنا، مونچھ تر اشنا وغیرہ ہے۔ اس کے بعد طواف کا تذکرہ ہے۔ گویا طواف سے قبل حاجی کے لیے ان تمام کاموں کی اجازت ہوجاتی ہے جو حالت احرام میں اس کے لیے ناجائز تھے، سوائے میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلق کے،کہ اس کی پابندی طواف تک رہتی ہے۔
مولانا مودودیؒ کے بیان میں اصلاً ’تحلل اکبر‘ کاذکر ہے، یعنی طواف زیارت کے بعد حاجی احرام کی تمام پابندیوں سے(بہ شمول جنسی تعلق) آزاد ہوجاتاہے۔